انڈیا کی آزادی کے 75 برس بعد ایک ایسا شخص برطانیہ کا وزیراعظم بنا ہے جس کے خاندان کا تعلق اس وقت کے متحدہ ہندوستان سے تھا اور جو علاقہ اب موجودہ پاکستان میں ہے۔ رشی سوناک کے برطانیہ کا وزیراعظم بننے پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے چند صارفین نے ان کے ہندوستانی ہونے پر فخر ظاہر کیا، کچھ نے ان کے ہندو نسب پر خوشی ظاہر کی ہے اور کچھ نے خبردار کیا ہے کہ اس میں انڈینز کے لیے زیادہ پرامید ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ انڈیا، پاکستان اور برطانیہ آزادی اور تقسیم کے بعد طویل سفر طے کر چکے ہیں، انڈیا جو ایک بڑا مذہبی اقلیتی آبادی والا ملک ہے وہاں ماضی میں مذہبی اقلیتی برادریوں کے کئی صدر اور ایک وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے میئر پاکستان نژاد فیملی سے ہیں جو کہ بٹوارے کے وقت لکھنؤ سے پاکستان چلے گئے تھے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ برطانیہ میں ایک ایسا شخص وزیر اعظم بنا ہے جو کہ ’’پرسن آف کلر‘‘ یعنی غیر سفید فام ہے جس کے آباؤ اجداد جنوبی ایشیا سے آئے تھے اور جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ رشی سوناک کے وزیر اعظم بننے کے اعلان کے بعد انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا آپ کے برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کے بعد میں عالمی مسائل پر مل جل کر کام کرنے اور روڈ میپ 2030 کو لاگو کرنے کا منتظر ہوں، جب کہ ہم اپنے تاریخی تعلقات کو جدید شراکت داری میں تبدیل کر رہے ہیں، انگلینڈ میں ہندوستانیوں کے ’’لیونگ بریج‘‘ کو دیوالی کی خصوصی مبارکباد۔ اگرچہ انڈیا میں زیادہ تر اخبارات دیوالی کی تعطیلات کی وجہ سے شائع نہیں ہوئے لیکن جو شائع ہوئے ہیں ان میں سے دنیا کے سب سے بڑے انگریزی اخباروں میں سے ایک ٹائمز آف انڈیا کی سرخی تھی، ’’برطانیہ دیوالی پر رشی راج لایا‘‘، ہندی اخبار نوبھارت ٹائمز نے ملتی جلتی سرخی لگائی کہ ’’برطانیہ میں رشی راج‘‘، تاہم کولکتہ سے شائع ہونے والے ٹیلی گراف اخبار نے غالباً ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے پہلے صفحے پر سرخی لگائی کہ ’’سابق ہندوستانی کمپنی برطانیہ کو چلائے گی‘‘۔ انڈیا میں رشی سوناک کے وزیر اعظم بننے پر واضح طور پر دلچسپی ہے، سوشل میڈیا پر ان سے متعلق متعدد موضوع ٹرینڈ کر رہے ہیں، بہت سے صارفین نے ان کے ہندو نسب کی طرف اشارہ کیا ہے اور کچھ نے ان کے ہندوستانی نسب پر فخر ظاہر کیا ہے۔ رشی سوناک کے عروج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے کہا کہ ’’میرے خیال میں ہم سب کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انگریزوں نے دنیا میں ایک بہت ہی نایاب کام کیا ہے، ایک ظاہری طور پر اقلیتی رکن کو سب سے زیادہ طاقتور عہدہ سونپا ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا، جب ہم ہندوستانی رشی سوناک کے عروج کا جشن مناتے ہیں تو آئیے ایمانداری سے سوال کریں، کیا یہ یہاں (انڈیا میں) ہو سکتا ہے، تھرور کے ٹویٹ پر واضح طور پر کئی لوگوں نے غصہ کا اظہار کیا۔ صارفین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انڈیا میں پہلے ہی کئی مسلم صدر اور ایک سکھ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اگرچہ انڈیا میں دیگر مذہبی اقلیتوں کی تعداد کم ہے، اس کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمان آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں اور آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی کبھی کوئی مسلم وزیر اعظم نہیں بنا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی تاریخی سطح پر کم ہے اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار مرکزی حکومت کی کابینہ میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ پنیاب نامی صارف نے اس تضاد کی نشاندہی کی۔ انھوں نے لکھا ’ہندو برطانیہ کی آبادی کا صرف 1.5 فیصد ہیں۔ اور مسیحی اکثریتی ملک میں ایک ہندو وزیر اعظم ہے۔ مسلمان انڈیا کی آبادی کا 15 فیصد ہیں، مسلم وزیر اعظم کو تو چھوڑیں، انھیں 543 سیٹوں میں سے صرف 27 (5 فیصد) لوک سبھا (پارلیمانی) سیٹیں ملیں۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف حالیہ تشدد کے باوجود انڈیا اپنے تنوع پر فخر کرتا ہے جو کہ اکثر خود کو ایک روادار ملک کے طور پر پیش کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ 1970 کی دہائی کی امیتابھ بچن کی بلاک بسٹر فلم اور لندن کے میئر صادق خان کا حوالہ دیتے ہوئے سینئر صحافی مرنال پانڈے نے لکھا کہ ایک مسیحی بادشاہ، ایک مسلمان میئر اور ایک ہندو وزیر اعظم کے ساتھ لندن ’’امر اکبر انتھونی‘‘ کے ریمیک کے لیے تیار ہے لیکن بہت سے انڈینز خاص طور پر بی جے پی کے رہنماؤں نے ایسی ہی صورتحال میں کانگریس کی اس وقت کی صدر سونیا گاندھی کے وزیر اعظم بننے کی امکان کی شدید مخالفت کی تھی۔ سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ وہ ملک کی وزیر اعظم بنیں گی لیکن ایسا اعلان کرنے سے پہلے، بی جے پی کے رہنماؤں نے ان کے اطالوی نسب کا حوالہ دیتے ہوئے شدید مخالفت کی۔ اس کے بعد سونیا نے کانگریس پارٹی کی صدر کے طور پر خود کے بجائے من موہن سنگھ کا نام تجویز کیا جنھوں نے 2014 میں بی جے پی کے نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے تک 10 سال تک ملک کی قیادت کی۔ بی جے پی کے سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ادیت راج جو اب کانگریس کے ساتھ ہیں، بھی اس بات کو اٹھایا۔ انھوں نے کہا رشی سوناک اور ان کی اہلیہ ہندوستان نژاد ہیں اور باراک اوباما کے والد کینیا کے تھے اور انھیں قبول کر لیا گیا۔ حیران کن طور پر بی جے پی لیڈر رشی سوناک کو مبارکباد دے رہے ہیں، یہ کیسے، جب سونیا گاندھی جی کو وزیر اعظم بنانے کی تجویز پیش کی گئی تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔ رشی سوناک کی ہندو شناخت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی جے پی رہنما کارتک شرما نے کہا کہ پہلے ہندوستان نژاد اور پہلے ہندو وزیر اعظم اور 42 سال کی عمر میں، جدید دور میں سب سے کم عمر وزیر اعظم انڈیا کی آزادی کے 75 سال کے امرت مہوتسو پر ایک اہم اعزاز۔ جب رشی سوناک برطانیہ کے وزیر خزانہ بنے تھے تو انھوں نے ہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا تھا اور مبینہ طور پر کہا تھا کہ میں اب برطانیہ کا شہری ہوں لیکن میرا مذہب ہندو ہے۔ میرا مذہبی اور ثقافتی ورثہ ہندوستانی ہے۔ میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں ہندو ہوں اور میری شناخت بھی ہندو ہے۔ دائیں بازو کے ٹویٹر ہینڈلز نے ان کے ہندو ورثے کی نشاندہی کی ہے تو بہت سے صارفین نے ان کے آزادی سے پہلے کے ہندوستانی نسب کو بھی اجاگر کیا ہے۔ کئی صارفین نے رشی سوناک پر تنقیدی تبصرے پر ناراضی کا مظاہرہ کیا جس میں ان کی سماجی حیثیت اور دولت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اپارجیت بھارت نے لکھا ایک ہندو کو مبارکباد دینے کے بجائے جو کہ انڈیا کا داماد بھی ہے، یہ کانگریسی انڈیا میں مسلمان کو وزیر اعظم بنانے کا کہہ رہے ہیں، ہندوؤں سے اتنی نفرت، آپ ہندوؤں پر ظلم کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے اور یہ دیوالی کے دن کر رہے ہیں، سراسر شرمندگی کی بات ہے،سوشل میڈیا پر رشی سوناک کے کھانے پر بھی تنقید ہوئی، وہ مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھاتے ہیں جسے کئی صارفین نے اجاگر کیا۔ رشی سوناک کی جولائی 2022 میں گائے کا کاروبار کرنے والے کسانوں کی حمایت میں کی گئی ٹویٹ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جس میں انھوں نے کہا تھا، ’’میرا حلقہ گائے کا گوشت اور بھیڑ کا کاروبار کرنے والے سیکڑوں کسانوں کا گھر ہے اور میں اس شاندار صنعت کی حمایت کیلئےپرعزم ہوں جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ لوگوں کے کھانے کے انتخاب ان کی اپنی پسند ہوتی ہے۔ میں ایک ایسی حکومت کی قیادت کروں گا جو اندرون اور بیرون ملک ہمارے مویشیوں کے کسانوں کی بات کرے‘‘۔ رشی سوناک صنعتکار نارائن مورتی کے داماد ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنیوں میں سے ایک ’’انفوسس‘‘ کے شریک بانی ہیں۔ آشیش مشرا نے لکھا کہ نارائن مورتی کے علاوہ باقی سب کو اپنے کام پر دھیان دینا چاہیے نہ کہ سونک پر۔ انھوں نے لکھا رشی سوناک پر فخر کرنے والے واحد انڈین مسٹر نارائن مورتی ہیں جنھوں نے برطانوی وزیر اعظم کو اپنا داماد بنایا ہے۔ کچھ لوگوں نے کرکٹر آشیش نہرا کی ایک تصویر شیئر کی جس میں مزاحیہ طور پر یہ اشارہ کیا گیا کہ وہ رشی سوناک جیسے نظر آتے ہیں، پربھاکر کھنا نے لکھا کہ رشی سوناک کا کیریئر کیا لاجواب تھا۔ 2003 ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے خلاف وہ سپیل اب بھی یاد ہے۔ 30 کی عمر کے آخر میں ہندوستانی ٹیم میں واپسی کی، بطور کوچ آئی پی ایل ٹرافی جیتی اور اب صرف 42 سال کی عمر میں برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کے راستے پر ہیں۔ (بشکریہ بی بی سی۔لندن)