فرعونیت کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے جس میں فرعونی سوچ رکھنے والا شخص اپنے اختیارات ، طاقت اور رتبے کے بل بوتے پر اپنے سے کمزور یا اپنے مخالفین پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑدیتا ہے اور یہ فرعونی سوچ اگرکسی حاکم کے اندر پیدا ہوجائے تو پورا معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے ، ہمارے معاشرے میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جس میں ایک طاقت ور شخص جس کے پاس اختیار ،طاقت اور رتبہ ہوتا ہے تووہ اپنے مخالفین کے خلاف ظلم کی حد تک طاقت اور اختیار استعمال کرتے ہوئے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے،جس کے معاشرے پر تباہ کن اثرات رونما ہوتے ہیں ۔سیاست کی بات کریں تو حال ہی میں مسلم لیگ ن کے کئی رہنمائوں، جن میں وزیر اعظم شہباز شریف ، حمزہ شہباز ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر سمیت بڑی تعداد میں سیاسی رہنمائوں کے خلاف سابقہ حکومت کے دور میں بنائے گئے مقدمات جھوٹے ثابت ہورہے ہیں اور یہ تمام رہنما عدالتوں سے باعزت بری ہورہے ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدنی سے زائد اثاثہ جات بنانے جیسے الزامات پر درجنوں نہیں سینکڑوں مقدمات بنائے گئے ،جن رہنمائوں پر یہ مقدمات بنائے گئے ان میں یوسف رضا گیلانی ، احسن اقبال ، خواجہ آصف ، خورشید شاہ ، آغا سراج درانی ، عابد شیر علی سمیت متعدد دیگر رہنما شامل ہیں جن پر صرف مقدمات ہی نہیں بنائے گئے بلکہ بڑی تعداد میں ان رہنمائوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل بھی رکھا گیا ، لیکن کسی کے خلاف ایک بھی الزام ثابت نہ ہوسکا اور جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا،اور ان مقدمات پر کارروائی کے لیے سیاسی دبائو ختم ہوا تو یہ مقدمات بھی عدالتوں سے ختم ہونے لگے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سے نامور صحافی بھی ایسے ہیں جو سابقہ حکومت کے ظلم کا شکار ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھر عدالت سے بے گنا ہ قرار پاکر رہائی حاصل کی ۔لیکن کیا صرف سیاسی مخالفت یا ذاتی عناد میں کسی بھی شخص کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرانا اوراسے گرفتار کرنا جائز ہے ؟ جی نہیں،نہ ہی ہمارا دین اور نہ ہی ہمارا آئین ایسے جھوٹے مقدمات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ دین میں تو کسی پر تہمت اور بہتان لگانابھی انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔آئین پاکستان بھی جھوٹے الزامات اور جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ آئین میں شق 182 غلط مقدمہ درج کروانے سے متعلق ہے، یعنی اگر کسی نے اپنے کسی مخالف کے خلاف مقدمہ درج کروایا اور عدالت میں یہ الزام ثابت نہ ہوا تو سرکار کی طرف سے مدعیِ مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار ہے۔قانون میں اس شق کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری ملازم کو کسی کے خلاف کوئی معلومات دے اور وہ سرکاری ملازم اس شخص کے خلاف اپنے اختیارات استعمال کرے اور بعدازاں یہ اطلاع جھوٹی ثابت ہو تو اس شکایت کرنے والے کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔قانون میں اس بات کا ذکر بھی موجود ہے کہ ایسا مقدمہ جس میں کسی ملزم کو موت کی سزا سنائی ہو یا سزا ہوسکتی ہو اور مقامی عدالت یا اعلیٰ عدالتوں نے ملزم کو ان الزامات سے بری کردیا ہو تو ایسے مقدمے کے مدعی کو سات سال قید کی سزا ہو سکتی ہے جب کہ ایسا مقدمہ جس میں کسی شخص کو عمر قید کی سزا ہوسکتی ہو تو ایسے مدعیِ مقدمہ کو پانچ سال کے لیے جیل جانا ہوگا۔پاکستان کی ماتحت عدلیہ کی تاریخ میں دو درجن سے زیادہ مقدمات ایسے ہیں جن میں جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ۔جاپان میں کیس درج کرانے کی درخواست موصول ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے سخت تفتیش کی جاتی ہے اور اگر کسی بھی مرحلے پر پتہ چل جائے کہ مدعی مقدمہ نے جھوٹا کیس درج کرانے کی کوشش کی ہے تو اسی وقت پولیس مدعی کے خلاف کارروائی شروع کر دیتی ہے تاکہ کسی بے گناہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج ہونے سے روکا جاسکے ، امید ہے کہ پاکستان میں سیاسی و ذاتی مخالفت میں مقدمات کے اندراج کو روکنے کے لیے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت وقت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔