• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رشی سونک کی کامیابی، پاکستانیوں کیلئے ایک واضح پیغام

رشی سونک برطانیہ کے نئے وزیرِاعظم بن چُکے ہیں۔ سُبک دوش ہونے والی وزیرِاعظم، لزٹرس صرف چھے ہفتے اپنے عُہدے پر کام کر سکیں۔ اُن کے استعفےکی وجوہ سادہ تھیں کہ اُنھوں نے معاشی بحران کے دَوران خود کو ملک چلانے کا اہل نہیں سمجھا۔ اپنی نااہلی کا اعتراف ہر شخص کے لیے مشکل ہوتا ہے، جب کہ سیاست دان تو اِس اعتراف کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ اِس سے اُن کا سیاسی کیریئرختم ہوسکتا ہے۔ تاہم، جہاں ملک اور جمہوریت کو اولیت دی جاتی ہو، وہاں ایسی جرأت دیکھنے کو ملتی رہتی ہے۔ رشی سونک چند ہفتے پہلے بھی اِس عُہدے کے بالکل قریب تھے، لیکن اُنہوں نے اپنی پارٹی کی ایک سینئر رُکن کو موقع دیا کہ وہ یہ اعلیٰ عُہدہ سنبھال کر مُلکی مسائل حل کریں۔ 

خاتون رہنما کی ناکامی پر اب وہ پارٹی میں اکثریت ثابت کر کے وزیرِاعظم کے عُہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔42 سالہ رشی سونک ایک تاجر ہیں۔ وزیرِاعظم کے عُہدے تک پہنچنے کی دوڑ شروع ہونے سے قبل ہی واضح طور پر پتا چل رہا تھا کہ رشی سونک ہی یہ عُہدہ سنبھالیں گے۔ اُن کے پاس ایک سو کا میجک نمبر موجود تھا۔ برطانیہ کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی پارٹی نے صرف چھے سال میں چھے وزیرِاعظم بدلے ہوں۔ کنزرویٹو پارٹی، جس کی سربراہی اب رشی کریں گے، گزشتہ بارہ سال سے ملک پر حکومت کر رہی ہے۔

اس کے دَور کے دو اہم ترین واقعات، بریگزٹ اور کورونا ہیں۔ بریگزٹ کی شروعات ڈیوڈ کیمرون کے کروائے گئے ریفرنڈم سے ہوئی اور بورس جانسن کے دَور میں یہ کام انجام کو پہنچا۔ یہ یورپ کی حالیہ تاریخ کا ایک بڑا انقلاب تھا۔ کنزرویٹو پارٹی، ڈیوڈ کیمرون اور بورس جانسن اس کے مخالف تھے، لیکن عوام کا فیصلہ آنےکےبعد اسی پارٹی اور اِنہی لیڈرز نے اسے اختتام تک پہنچایا۔ 

بریگزٹ کے وقت ہم نے بتایا تھا کہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات تو ہیں ہی، اقتصادی اورسماجی طور پر بھی برطانوی قوم اور اس کی سیاسی قیادت کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کورونا کی تباہ کاریوں اور اب یوکرین جنگ نے معاملات مزید پیچیدہ بنا دیے ہیں کہ منہگائی کی لہر سے عوام حواس باختہ ہو چُکے ہیں۔ خاص طور پر انرجی سیکٹر کے بِلز عوام کے لیے بوجھ بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل وزیرِ اعظم بدلے جا رہے ہیں۔ ابھی عام انتخابات میں دو سال باقی ہیں، یعنی2025 ء تک رشی سونک کو موقع ملے گا کہ وہ ملک کے حالات سنبھالیں، عوام کو مطمئن کریں اور کنزرویٹو پارٹی کی ساکھ بحال کریں۔

برطانوی شہری بھی دوسرے مُمالک کے عوام کی طرح غلطیاں کرسکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں، جن کے نتائج بھی بھگتتے ہیں، لیکن وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ چُکے ہیں کہ حکومت کا کام اُن کی بھلائی کےکام کرنا ہے، اِسی لیے برطانیہ کو ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ برطانیہ نے دنیا پر راج کرنے کے شوق کو تو دوسری عالمی جنگ کےبعد ہی خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس جنگ میں جیت کر بھی اُسے یہ سبق ملا تھا کہ دنیا پر حکومت کرنا، کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔ جنگ جیتنے والے کو بخشتی ہے اور نہ ہارنے والے کو۔ وہاں کے عوام اِس وقت بھی اسی ویلفیئر کے نظریے کی بنیاد پر کسی ایسے رہنما کی تلاش میں ہیں، جو اُنھیں اقتصادی طور پر ایک عظیم قوّت بنا سکے۔

برطانوی سیاست دانوں نے بریگزٹ کا بھی یہی جواز پیش کیا تھا کہ اس سےقوم و ملک کواپنےوسائل اور صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کا موقع ملے گا۔ وہاں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’مَیں ہی مہاتما ہوں اور میرے علاوہ کوئی مُلکی حالات درست نہیں کرسکتا۔‘‘ وہاں کے عوام کو اِس طرح کی باتوں سے بے وقوف بنانا ناممکن ہےکہ اب برطانوی بالغ ہوچُکے ہیں۔ رشی سونک کا پس منظر دیکھا جائے، تو وہ اِس عہدے کےخاصے اہل نظرآتےہیں۔ وہ مالیاتی گورنینس جانتے ہیں، وزیرِ خزانہ رہ چُکے ہیں۔ 

ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر کام یابی سے کاروباری ادارے چلا رہے ہیں۔ وہ ایک پنجابی ہندو خاندان کے فرد ہیں، جو جنوبی افریقا سے برطانیہ منتقل ہوا تھا۔ نیز، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،برطانیہ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی اور امریکا کے ُفل برائٹ اسکالر رہے۔ ان کی اہلیہ، اکشتا مورتی بھی ایسے ہی تعلیمی بیک گرائونڈ کی حامل ہیں، جب کہ اُن کا شمار برطانیہ کی امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے۔ وہ ارب پتی تاجر، این آر نارایانا مورتی کی صاحب زادی ہیں۔ 

سونک اور اکشتا کا شماربرطانیہ کے200 ارب پتی خاندانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کی دولت730 ملین پائونڈز سے زاید بتائی جاتی ہے۔ برطانیہ کی حالیہ سیاست سے واقفیت رکھنے والےجانتے ہیں کہ کنزرویٹو پارٹی میں اِن دنوں شدید تقسیم پائی جاتی ہے اور ذرا ذرا سے سیاسی اختلافات پر دھڑے بندیاں دیکھنے میں آتی ہیں، جس کا مظاہرہ گزشتہ چھے برسوں سے ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مُلکی معاشی حالات کے باوجود پارٹی اپنے اختلافات پر قابو نہیں پاسکی۔

برطانیہ پارلیمانی جمہوریت ہے اور اس میں دو پارٹیز ہی اقتدار میں آتی ہیں، یعنی ٹوری یا کنزرویٹو اور لیبر پارٹی۔ لیبر پارٹی سے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ سوشلسٹ نظریات کی جانب جھکائو رکھتی ہے اور تارکینِ وطن کے لیے سافٹ کارنر کی حامل ہے۔ اِسی لیے پاکستانی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد اُسےپسند کرتی ہے۔ اس کے برعکس، کنزرویٹو یا ٹوری پارٹی تارکینِ وطن کے خلاف نت نئے قوانین لاتی رہتی ہے۔ اسی کے دَور میں بوڑھے والدین کی بچّوں کے ساتھ رہنے کی سہولتیں ختم کی گئیں، جس سے ویلفیئر اسٹیٹ کے نظریے کو دھچکا پہنچا۔ اسی کے دَور میں بریگزٹ ہوا۔ رشی سونک وہ پہلے ہندو اور غیر برطانوی ہیں، جو وزارتِ عظمیٰ تک پہنچے۔ 

واضح رہے، دنیا میں اب تک 38 بھارتی نژاد شہری دیگر مُمالک کے سربراہ بننے میں کام یاب رہے ہیں۔ اُن میں پاکستانیوں کے پسندیدہ ملائیشین وزیرِ اعظم، مہاتیر محمّد بھی شامل ہیں، جنہوں نے جدید اور ترقی یافتہ ملائیشیا کی بنیاد رکھی۔ امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر، کملا ہیرس بھی بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ اگر امریکی صدر کسی وجہ سے مُلکی معاملات چلانے کے قابل نہ رہے، تو کملا ہیرس ہی یہ ذمّے داری نبھائیں گی۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان بہترین تعلقات ہیں، اِسی لیے پاکستانی وزیرِ اعظم، میاں شہباز شریف نے سونک کو عُہدہ سنبھالنے پر نیک خواہشات اور تعلقات میں فروغ کی توقّع پر مبنی پیغام بھیجا۔ 

برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے یہ ایک بہت اچھی بات ہے کہ دونوں ممالک کے سربراہان میں اچھی انڈر اسٹینڈنگ رہے۔ برطانیہ کے حالیہ سیاسی پس منظر میں پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے بھی بہت سے پیغامات ہیں۔ وہاں 12 لاکھ سے زاید پاکستانی آباد ہیں،جن میں سے ایک اِس وقت لندن کا میئر ہے، جو یقیناً ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ اسے برطانیہ کے کلیدی عُہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور یہ ہر کمیونٹی کے لوگوں کے اعتماد کا مظہر بھی ہے۔ تاہم،تارکینِ وطن نےکچھ عرصے سے جو اندازِ سیاست اپنایا ہے، اُس پرنظرثانی کی بےحد ضرورت ہے۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ چینی طلبہ کی طرح اپنے ملک واپس آئیں گے؟ بیش تر افراد کا جواب’’ ناں‘‘ ہی میں ہوگا۔ وہ وہاں سیٹل ہوگئے ہیں اور اب اُن کا اصل وطن، نیا وطن ہی ہے، جسے اُنہوں نے خود پسند کیا اور وہاں جانے کے لیے بہت تکالیف بھی اٹھائیں۔ اُن کےبچّے وہیں کی معاشرت میں پَل بڑھ رہے ہیں۔ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اوّل تو اُنہیں اپنی کمیونٹی کو مضبوط کرنا چاہیے۔ دوم، وہاں کی سیاست اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ اپنے آبائی ملک سے محبّت بہت اچھی بات ہے، لیکن وہاں کی پاکستانی کمیونٹی کی بقا، تو اب اُن کی سیاسی اور معاشرتی مضبوطی ہی میں ہے۔ اُن کی اہمیت کا تعیّن اب اِسی سے ہوگا کہ وہاں کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام میں اُن کا کیا مقام ہے۔ پاکستانیوں کو وہاں کے کاروباری حلقوں میں اہم مقام پیدا کرنا چاہیے۔ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ 

یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہےکہ ہمارے ڈاکٹر، انجنئیر اور دیگرتعلیم یافتہ نوجوان کچھ بھی کرنے کے لیےکم اجرت کی ملازمتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک کے تاجر اور اُن کی کمپنیز کی وہاں مانگ ہو، تو ان پاکستانیوں کو ملازمتوں کے حصول میں بہت آسانی ہوگی۔ یہ ماڈل بھارت نے اپنایا اور وہ اِس کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ، برطانیہ اور امریکا میں بااثر ہوگیا۔ اسی سے اُس کی لابیز مضبوط ہوئیں۔ بھارتی وہاں کی سیاست اور معاشرت میں اپنا مالیاتی حصّہ ڈالتے ہیں، جس سے اُن کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کاروبار کو پیسا کمانے کی کوئی غیر قانونی مشین سمجھ لیا گیا ہے اور جنہوں نے یہ سوچ عام کی، اُنہوں نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔

پاکستانی تارکینِ وطن بھارتی، چینی اور دوسری کمپنیز میں چھوٹی چھوٹی ملازمتوں پر مجبور ہیں۔ وہ تعصّب اور میرٹ نظر انداز کرنے کی بھی شکایات کرتے ہیں۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ جس زرِ مبادلہ پر اتنا شور مچاتے ہیں، وہ پاکستانی کس خون پسینے کی کمائی سے یہاں بھجواتے ہیں۔ اُن کے جو عزیز و اقارب اس زرِ مبادلہ سے پاکستان میں فیض یاب ہوتے ہیں، شاید ہی اُنھوں نے کبھی غور کیا ہو کہ اُن کے پیارے بیرونِ ملک کیسی سخت زندگیاں گزارتے ہیں۔ پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ برطانیہ میں بھارت کا اندازِسیاست کیا ہے۔ کیا وہ اپنی اندرونی سیاست وہاں لے آئے ہیں۔ 

کیا ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور لیڈر بھارتی شہریوں کو اپنی پارٹی پالیٹکس اور دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کو بے عزت کرنے کےلیےاستعمال کرتےہیں یا وہ برطانیہ کے اعلیٰ ترین عُہدوں اور وہاں کے دولت مندوں کی فہرست میں نام پانے پر توجّہ دے رہے ہیں۔ یاد رہے، بھارت اور چین میں دہری شہریت کی ممانعت ہے اور ایسے افراد کو آبائی ملک میں ووٹ کا بھی حق حاصل نہیں۔ شاید ایسا اِس لیے ہے کہ وہ دو کشتیوں کے مسافر بننےکی بجائے ایک ہی جگہ پیر ٹِکا کر خوش حال ہوسکیں۔

یوکرین کی جنگ نے دنیا بھر میں ہل چل مچائی ہوئی ہے۔ یورپ کو عام طور پر فروری میں توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر اِس بار تو وہ سردیوں کے آغاز ہی سے مسائل سے دوچار ہے کہ اُسے روس سے تیل اور خاص طور پر گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ توانائی کا بحران یورپ کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اوپیک کے حالیہ اجلاس سے پہلے امریکی صدر نے سعوی عرب اور دیگر عرب مُمالک کا دورہ کیا، جس کا مقصد ان ممالک کو تیل کی پیداوار میں اضافہ جاری رکھنے پر آمادہ کرنا تھا، لیکن اوپیک پلس کے اجلاس میں، جس کا روس بھی رکن ہے، تیل کی پیداوار نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس پر امریکا بہت سیخ پا ہوا، واشنگٹن اور ریاض میں تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا۔ 

امریکا کو مجبوراً اپنے محفوظ ذخائر سے تیل جاری کرنا پڑا تاکہ قیمتوں میں اضافہ روکا جا سکے۔ اِس وقت یورپ سے لے کر امریکا اور آسٹریلیا سے جاپان تک، سب صنعتوں اور گھریلو صارفین پر توانائی کے بِلز کا دبائو کم کرنے کے لیے خصوصی پیکجز دے رہے ہیں، جو بلین ڈالزز میں ہیں۔ اس کے مارکیٹ پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب منہگائی کا شور صرف پاکستان ہی میں نہیں، برطانیہ، یورپ اور امریکا میں بھی سُنا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا تو کہنا ہے کہ کئی حکومتیں اِس معاشی بحران کی وجہ سے فارغ ہوجائیں گی اور باقی بھی شدید مشکلات میں گِھری رہیں گی۔ 

چین میں صدر شی جن پنگ تیسری مرتبہ صدارت کے لیے منتخب ہوچکے ہیں۔ اُن کے روس، یورپ اور امریکا سے اچھے تعلقات ہیں۔ اُن کی خواہش اور پالیسی ہے کہ عالمی نظام میں بحران نہ آئے۔ چین نے یوکرین جنگ میں تقریباً نیوٹرل کا کردار ادا کیا۔ گو، اس نے روس سے سستا تیل خرید کر اُسے معاشی بحران سے نکلنے میں مدد دی۔ غالباً وہ چاہتا تھا کہ صدر پیوٹن کسی بڑی ہزیمت سے دوچار ہوکر کوئی انتہائی قدم نہ اُٹھا بیٹھیں، کیوں کہ اس جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا بہت ذکر ہو رہا ہے۔ 

یوکرین کی جنگ اگر روس جیسی طاقت کے نقطۂ نظر سے دیکھی جائے، تو بہت طول پکڑ چُکی ہے اور اب اسے انجام تک پہنچانے کا وقت آگیا ہے۔ اسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ صدر پیوٹن بھی آخر کب تک تیل اور گیس کم قیمتوں پر فروخت کریں گے اور مغربی طاقتیں کب تک یوکرین کی مالی اور فوجی مدد کریں گی۔ یہ سوال تمام فریقین کے لیے بنیادی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔