• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کا شکر ہے بے یقینی اور تذبذب کے سائے چھٹ گئے اور یہ طے پا گیا کہ اس ملک میں کوئی ایڈونچر نہیں ہو گا،کوئی تبدیلی نہیں آئے گی،سب پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے ،نہ دھرتی دھڑ،دھڑ، دھڑکے گی نہ بجلی کڑ کڑ کڑکے گی،نہ تاج اچھالے جائیں گے نہ تخت گرائے جائیں گے،آرٹیکل 6کے اطلاق کی بات آپ اسے جگت بازی سمجھ کر ہنستے رہیں اور جمع خاطر رکھیں کہ بغاوت کے جرم میں کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کا ٹرائیل نہیں ہو گا۔انوکھے لاڈلے کھیلن کو چاند مانگ رہے تھے ،اب بھلا بچوں کی ہر بات تو نہیں مانی جاتی نہ۔تارے توڑنے کی بات ہوتی تو بھی سوچا جاسکتا تھا،یہاں تو معاملہ اس ماہتاب کا تھا جسے گرہن لگ جائے تو بھی کوئی اسے نہیں چھو سکتا۔
آپ چراغ لیکر ڈھونڈیں تو بھی روئے زمین پر ایسی فراخ دل قوم نہیں ملے گی جس کے ہاں غداروں کو ایسی آزادی حاصل ہو۔ یہ پاکستان ہے ،برطانیہ نہیں کہ جہاں غاصب جرنیل کو مرنے کے بعد بھی معافی نہ ملی۔ اولیور کرامویل جب مرا تو اسے چپکے سے ویسٹ منسٹر کیتھڈرل میں دفنا دیا گیا۔دوسال بعد جب اصلاحاتی تحریک کے نتیجے میں جمہوریت بحال ہوئی تو غداری کے جرم میں اولیور کرامویل اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں نکال کر ٹرائل کیا گیا۔سزا سنائے جانے کے بعد علامتی طور پر مجرم کو زنجیریں پہنائی گئیں اور جلاد کے ذریعے سر قلم کر کے چوراہے میں لٹکا دیا گیا۔نشان عبرت کے طور پر آج بھی وہاں ماربل آرچ موجود ہے۔اس واقعہ کو چار سو سال بیت چکے ہیں مگر وہاں کسی کرامویل ثانی نے بندوق کی نوک پر شب خون مارنے کی غلطی نہیں کی۔ہم انقلاب فرانس کے حوالے ڈھونڈتے ہیں اور ہر بات پر تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ اب اس ملک میں خونی انقلاب آئے گا،لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ انقلاب کیسے آیا۔فرانسیسوں نے اپنے حقوق غصب کرنے پر شاہ لوئی ششم کو گلوٹین کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔رومانویوں نے آرٹیکل چھ لگا کرچائو شسکو کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے بھون ڈالا۔پانامہ میں جنرل نوریگا کا ٹرائل ہوا۔گوئٹے مالا میں جنرل Efrin Rios Montt کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ارجنٹینا کے ڈکٹیٹر رافیل وڈیلا کو سزا نہیں ہوئی مگر بغاوت کے جرم میں مقدمہ ضرور چلا اور دوران ٹرائل جیل میں ہی اس کی موت واقع ہوئی۔جو حکومتیں مصلحتوں اور مجبوریوں کے باعث سزا نہیں دے پائیں،وہاں بھی کوئی ڈکٹیٹر سینہ تان کر نہیں چل سکا۔فلپائن کے مارکوس نے ہوائی کے جزائر میں پناہ لی اور کبھی وطن واپسی کی ہمت نہیں کر پایا۔یوگنڈا کے عیدی امین نے سعودی عرب کے سایہء عاطفیت میں پناہ لی۔ایرانیوں کی ’’تنگ نظری‘‘ کا یہ عالم ہے کہ رضا شاہ پہلوی تو درکنار اس کی اولاد کو بھی ایران نہ آنے دیاگیا۔یہ وسعت قلبی صرف ہم پاکستانیوں کے حصے میں ہی آئی کہ اسکندر مرزا سے پرویز مشرف تک سب آئین شکن للکار کر کہتے رہے کہ ہے ہمت تو آرٹیکل چھ لگا کر دکھائو۔مگر کوئی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ہمت نہ کر پایا۔
چند روز قبل میاں نواز شریف عزم نوفور مشقوں کا معائنہ کرنے بہاولپور پہنچے تو ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے ایک ریٹائرڈجنرل بھی مدعو تھے۔ان کی نشست وزیراعظم کے بائیں ہاتھ تھی ،میاں صاحب نے نظر انداز کرنا چاہا مگر جنرل کیانی نے متوجہ کیا تو انہیں بادل نخواستہ جنرل(ر)عزیزاورانکے ساتھ موجود جنرل(ر)عبدالوحید کاکڑ کے پاس جا کر مصافحہ کرنا پڑا۔جب لنچ کیلئے وزیراعظم کھانے کی میز پر تشریف لے گئے تو یہاں بھی جنرل عزیز ان کے روبر تھے۔اگر اس تقریب میں سابق فوجی افسران کو مدعو کرنا مقصود تھا تو سینکڑوں آفیسرز میں سے جنرل (ر)عزیز کاانتخاب کیوں کیا گیا؟اور پھر انہیں وزیراعظم کے سامنے بٹھا کر کیا پیغام دیا گیا؟ہمارے ادارے کے ہونہاررپورٹر اعزاز سید نے اس جرنیل کو احساس ندامت دلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔میرے خیال میں اگر ان کے احساسات معلوم کرنے کے بجائے منتخب وزیراعظم سے پوچھا جاتا کہ آپ نے تو قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا،سپریم کورٹ میں تحریری جواب داخل کرایا تھا کہ ہم پرویز مشرف کا آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل کریں گے ،پرویز مشرف کو تو چھوڑیئے آپ کو اس کے مددگاروں سے نہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھ ملانا پڑ رہا ہے، اس موقع پرمجھے چاچا پھتو یاد آتا ہے ۔ایک مرتبہ کسی شرارتی لڑکے نے پوچھا،چاچا جی !آپ کے پاس اچار ہو گا۔چاچے نے پیار سے جواب دیا،بیٹا میرے پاس اچار کہاں سے آیا؟اگلے دن پھر کسی لڑکے نے پوچھ لیا،چاچا جی آپ کے پاس اچار ہو گا۔چاچے پھتو نے غصے سے کہا،میرے پاس نہیں ہوتا اچار وچار۔اگلے روز ایک لڑکے نے اتنا ہی کہا تھا’’چاچا پھتو...‘‘اور چاچا جوتا اتار کر گالیاں دیتا ہوا اس کے پیچھے بھاگ پڑا۔مجھے لگتا ہے عنقریب پرویز مشرف اور آرٹیکل چھ بھی اسی طرح نواز شریف کی چڑ بن جائے گی۔
پرویز مشرف کے ٹرائل نہ ہونے کے پیچھے بنیادی خوف تو اس بات کا تھا کہ ایک مرتبہ وردی والوں کو کٹہرے میں لانے کی روایت پڑ گئی تو پھر سب کے سر پر جوابدہی کی تلوار لٹک جائے گی۔مگر اکابرین جمہوریت وردی والوں سے کہیں زیادہ سہمے ہوئے لگتے ہیں۔ان کی تاویل یہ ہے کہ پرویز مشرف کا ٹرائل ہوا تو پنڈورا باکس کھل جائے گا اور بات بہت دور تک جائے گی۔ تمام افراد سے میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان قائد اعظم نے تن تنہا بنایا تھا؟کیا ہمارا ایٹمی پروگرام ڈاکٹر قدیر خان نے اکیلے آگے بڑھایا؟کیا 1992ء کا ورلڈ کپ عمران خان نے انفرادی طور پر جیتا؟اگر یہ تمام کارنامے ٹیم ورک کا نتیجہ تھے اور کریڈٹ لیڈر کو ملا تو 12 اکتوبر 1999ء کی بغاوت کے سرغنہ کو پنڈورا بکس کھولے بغیر کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جا سکتا؟جب فوج محاذ جنگ پر لڑتی ہے تو گولیاں برساتے اور سینہ تان کر گولیاں کھاتے تو سپاہی ہیں پھر فتح یا شکست کا ذمہ دار سپہ سالار کیوں قرار پاتا ہے؟اس لئے کہ وہ اس فوج کی قیادت کر رہا ہوتا ہے۔تو پھر 3نومبر کی ایمرجنسی پرچیف کو کیوں نشان عبرت نہیں بنایا جا سکتا؟اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ہاں جمہوریت پوپلوں کا وہ کلب ہے جو بادام کھانے کے خواہشمند تو ہیں مگر کرپشن کا ماس خورا دانت ہڑپ کر چکا ہے ۔وہ سب پاکستانی جو اس ادھیڑ بن میں تھے کہ کہیں ان کا ملک اپنی اقدار و روایات تیاگ کر منتقم مزاج ،تنگ نظر اور بے رحم معاشروں کے پیچھے نہ چل پڑے،انہیں یہ اندیشے اور وسوسے اپنے دل و دماغ سے نکال دینے چاہیئں۔حسب دستور ٹریفک کا اشارہ توڑنے پر چالان ہو گا مگر آئین توڑنے پر کوئی باز پرس نہیں ہو گی(خبردار!یہ پیکج صرف مخصوص افراد کے لئے ہے)اور یہ چمن یونہی رہے گا۔
تازہ ترین