چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کے کیس سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی پنجاب فیصل شاہ کار کو عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو طلب کر لیا۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ جمعرات کو بہت افسوس ناک واقعہ پیش آیا، کیا واقعے کا مقدمہ درج ہو چکا ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق زیادہ نہیں جانتا، ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی گئی تھی، شاید اب تک درج نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر درج نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اب تک پولیس تحقیقات شروع نہیں ہوئیں، پولیس نے تحقیقات نہیں کیں تو ممکن ہے کہ جائے وقوع سے شواہد مٹا دیے گئے ہوں، اس طرح کیس کے ثبوت متنازع اور بعد میں عدالت میں ناقابلِ قبول ہوں گے، پنجاب پولیس کی جانب سے کون عدالت آیا ہے؟ ایک ایماندار افسر کی سربراہی میں عمران خان پر حملے کی تحقیقات کرائیں۔
آئی جی پنجاب فیصل شاہ کار عدالت کے روبرو پیش ہو گئے۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب فیصل شاہ کار سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا استعفیٰ بھی دیکھا ہے، آپ کی بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کا سنا ہے، آپ ایف آئی آر درج کر کے ہمیں آگاہ کریں، آپ کام جاری رکھیں، عدالت یقین دلاتی ہے کہ کوئی آپ کے قانون کے مطابق کیے گئے اقدام میں مداخلت نہیں کرے گا،اگر کسی نے مداخلت کی تو پھر ہم مداخلت کریں گے۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے تحفظات ہیں، مقدمے کے اندراج میں کچھ سیاسی پہلو ہیں لیکن پولیس کے پاس اختیارات بھی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ اپنے اختیار کے تحت قانونی کارروائی کریں، اگر ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ مزید التواء کا شکار ہوا تو کریمنل جسٹس سسٹم میں خامی کے طور پر اس کو دیکھیں گے، وزیرِ اعلیٰ کے تحفظات پولیس کو مقدمے کے اندراج سے نہیں روک سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاءبندیال نے اپنے حکم میں آئی جی پنجاب سے کہا کہ 24 گھنٹے میں ایف آئی آر درج کریں ورنہ سو موٹو لیں گے۔
آئی جی پنجاب فیصل شاہ کار نے جواب دیا کہ حکومتِ پنجاب نے ایف آئی آر درج کرنے سے منع کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت پولیس خود ایف آئی آر درج کر سکتی ہے، 90 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر گیا اور ابھی تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی، فی الحال ازخود نوٹس نہیں لے رہے، 24 گھنٹے میں ایف آئی آر درج نہ ہوئی تو سوموٹو لیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی بھی دورانِ سماعت سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے ساتھ جو ہوا بہت دردناک ہے، آپ کا کیس ایچ آر سیل میں ہے، عدالت اس معاملے میں محتاط ہے، کیس کو قانون کے مطابق دیکھیں گے، آپ کبھی سپریم کورٹ کے ریسٹ ہاؤس میں نہیں ٹھہرے؟
اعظم سواتی نے جواب دیا کہ جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں کوئٹہ فیڈرل لاج میں ٹھہرا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل پر ان کی والدہ کے خط پر بھی ایچ آر سیل تحقیق کر رہا ہے، ارشد شریف کے قتل پر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کی رپورٹ کو دیکھیں گے، تحقیقاتی کمیشن معاملے کی تحقیق کے لیے کینیا گیا تھا، اس کمیشن سے رپورٹ منگوا رہے ہیں، سپریم کورٹ خود تحقیقات نہیں کر سکتی، پہلے مواد آ جائے پھر معاونت میں آسانی ہو گی، مواد کے بغیر تو عدالت ادھر ادھر سر مارتی رہے گی۔
اعظم سواتی نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے سوال کیا کہ کیا میں مبینہ ویڈیو آپ ججز کے علاوہ کسی کو دکھا سکتا ہوں؟
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پیمرا اور پی ٹی اے کو مبینہ ویڈیو ہٹانے کا حکم دے دیتے ہیں۔
اعظم سواتی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ جو ویڈیو ہٹائی جائے وہ ویڈیو نہ ہو جو مجھے بھیجی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 3 نومبر کو لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں قاتلانہ حملے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان فائرنگ سے زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان و دیگر رہنماؤں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔
فائرنگ کرنے والے شخص نوید کو بعد میں کنٹینر کے قریب سے پکڑ لیا گیا تھا جس نے عمران خان پر فائرنگ کا اعتراف بھی کیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا ہے۔