اسپورٹس مین اسپرٹ سے عاری بھارتی شائقین اور جذباتی بھارتی کرکٹرز کو شائد اس بات کا یقین ہی نہیں آرہا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں عالمی رینکنگ کی نمبر دو ٹیم انگلینڈ نے عالمی نمبر ون بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دے دی اس حیران کن اور عبرناک شکست کی کسک انہیں سالوں پریشان کرتی رہے گی۔ ایلیکس ہیلز اور کپتان جوز بٹلر ایڈیلیڈ اوول میں جارحانہ بیٹنگ کے زبردست مظاہرے سے سیمی فائنل بھارت سے چھین کر لے گئے۔ انگلش ٹیم ورلڈ کپ سے قبل پاکستان میں سات ٹی ٹوئینٹی میچ کھیل کر گئی ہے اور ورلڈ کپ کے بعد دونوں ملک تین ٹیسٹ کی سیریز میں آمنے سامنے ہوں گے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بھارتی شائقین ہر ٹورنامنٹ شروع ہوتے ہی اپنی ٹیم کو چیمپین بنوا دیتے ہیں۔2019 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں اسے مانچسٹر میں نیوزی لینڈ نے دھول چٹائی۔ امارات میں ایشیا کپ بہت پرانی بات نہیں ہے۔ جہاں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف فائنل کھیلا لیکن بھارت فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ اپنے اسپانسرز کے پیسے کے بل بوتے پر بھارتی کرکٹ بورڈ پوری دنیا میں دادا گیری کررہا ہے۔ بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب بھارت نے پاکستان آکر ایشیا کپ کھیلنے سے انکار کیا تھا لیکن ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کی شکست اسے مدتوں یاد رہے گی۔ بٹلر اور ہیلز کا طوفان انگلینڈ کو بڑی آسانی سے جیت کی طرف لے گیا۔
انگلینڈ نے جب مطلوبہ اسکور پورا کیا تو 24 گیندوں کا کھیل باقی تھا۔بٹلر 80 رنز پر کریز پر موجود تھے۔ ان کی گیندوں کی یہ اننگز 3 چھکوں اور 9 چوکوں پر مشتمل تھی۔ ہیلز نے صرف 47 گیندیں کھیلیں اور وہ 85 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے جس میں 4 چوکے اور7 چھکے شامل تھے۔ بھارت ابھی اکتوبر میں پاکستان کے ہاتھوں دس وکٹ کی شکست کو بھول نہیں پایا تھا کہ ایک اور ورلڈ کپ میں اسے دس وکٹ سے ہارکا منہ دیکھنا پڑا۔ خود فریبی کا شکار بھارتی پہلے پاکستان کی سیمی فائنل کی جیت پر چراغ پا تھے لیکن 24گھنٹے بعد اسے دوسرا دھچکا یہ لگا کہ اب اسے واپسی کاٹکٹ تھما دیا گیا ہے۔
بھارتیوں کو پاکستان کا فائنل میں پہنچنا ہضم نہیں ہورہا ہے۔ شرم ناک اور عبرت ناک شکست میں عرفان پٹھان بھی ان بھارتی شائقین میں سے ایک ہیں جو ہوش کھو بیٹھے ہیں اور بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ بھارت کے کئی سابق کرکٹرز نے اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے سفر کو سراہا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران ایک وقت ایسا جب تھا کہ پاکستان کا سیمی فائنل تک پہنچنا ناممکن لگ رہا تھا۔ عرفان پٹھان نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے، لیکن ’گریس‘ یعنی وقار آپ کے بس کی بات نہیں۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ان کا تبصرہ کھلاڑیوں کے بارے میں نہیں ہے۔ د راصل عرفان پٹھان اپنے ردعمل میں پاکستان کے کرکٹ شائقین سے شائستگی کی اپیل کر رہے تھے، سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر اس قدر مغرور ہوگئے کہ اسپورٹس مین اسپرٹ کو فراموش کرگئے، ایلکس ہیلز اور جوز بٹلر نے دھویا تو عرفان پٹھان سمیت کئی بھارتیوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ بھارت میں سب عرفان پٹھان جیسے نہیں ہیں کئی سنجیدہ لوگ ہیں جو پاکستان کی اچھی کارکردگی کی تعریف بھی کررہے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم اور کپتان بابر اعظم تعریف کے مستحق ہیں جنہوں نے تنقید برداشت کی لیکن ہمت نہ ہاری۔ خاموشی سے آگے بڑھتے رہے۔ لیکن پاکستان کی کارکردگی بھارتیوں کے لئے عبرت کا نشان ہے۔
اگلے سال بھارت نے پچاس اوورز کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا ہے۔ یقینی طور پر بھارت ہوم گراونڈ پر2011کی طرح ایک اور ورلڈ کپ جیتنا چاہے گا لیکن اس وقت زخم تازہ ہیں پہلے وہ زخم مندمل ہوجائے اس کے بعد بھارتی نئی بھڑ کیں ماریں گے۔ نئی مہم جوئی کی تیاری کریں گے اس وقت تو بھارتی پاکستان کی کارکردگی کو انجوائے کریں اور اپنی باری کا انتظار کریں لیکن اسپورٹس مین شپ کو نہ بھولیں۔