بالآخر وہ لمحہ آن پہنچا، جس کا جنوبی افریقا کو کئی دہائیوں سے انتظار تھا۔ 14جون 2025 ء کو لارڈز کے تاریخی میدان میں جنوبی افریقا کی کرکٹ ٹیم نے عالمی ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں آسٹریلیا کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر نہ صرف اپنا دوسرا آئی سی سی ٹائٹل جیتا، بلکہ27سالہ مایوسی و محرومی کی زنجیر کو بھی توڑ دیا۔
یہ کوئی معمولی فتح نہ تھی، بلکہ تاریخ کے ایک طویل باب کا اختتام اورگویا ایک نئے دَور کی شروعات تھی۔ یہ کام یابی اُن بے شمار خوابوں کی تعبیر تھی، جو ہر عالمی ٹورنامنٹ میں ناکامی کے بعد ٹوٹ کر بکھر گئے تھے، کیوں کہ1998ء میں پہلی اور آخری بار آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی جیتنے والی ٹیم اُس برس سے لے کر2025ء تک ہر بار ہی کسی نہ کسی المیے کا شکار ہوتی رہی۔
کبھی بارش کی مار، کبھی اعصابی کم زوری اور کبھی ناقص فیصلوں کے باعث مختلف ٹائلزٹائٹل کے حصول میں ناکام رہی ۔کئی بار وہ سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچی، لیکن جیت نہ سکی۔ یہاں تک کہ اسی وجہ سے اسے ’’چوکر‘‘ کہا جانے لگا۔ تاہم، اس بار خود اعتمادی، اتحاد ویگانگت اورثابت قدمی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
لارڈز کے میدان میں ہونے والے فائنل مقابلے میں جنوبی افریقا کے اوپنر بلّے باز، ایڈن مارکرم مردِ میدان بنے۔ انہوں نے آسٹریلوی پیس اٹیک کا بھرپور انداز میں دفاع کیا۔ یاد رہے،136رنز کی یادگار اننگز کھیل کر جنوبی افریقا کو ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں فتح دلانے میں مارکرم کا کردار سب سے اہم رہا، جب کہ ٹیم کے کپتان ٹمبا باؤما نے بھی مارکرم کا بھرپور ساتھ دیا اور 66رنز کی بہترین اننگز کھیل کر ٹیم کو جیت کے قریب پہنچایا۔
یہ مقابلہ ابتدا ہی سے بہت سنسنی خیز تھا۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 212رنز بنائے، جس میں اسٹیو اسمتھ نمایاں رہے، جب کہ جنوبی افریقا کے کگیسو رابادا نے تباہ کن باؤلنگ کرتے ہوئے پانچ کھلاڑیوں کو پویلین لوٹایا۔ جواب میں جنوبی افریقا محض 138رنز پر سمٹ گیا کہ پیٹ کمنز نے شان دار باؤلنگ کے ذریعے 6 وکٹیں حاصل کرکے اپنی تین سو وکٹوں کی تکمیل کی۔
دوسری اننگز میں آسٹریلیا نے مچل اسٹارک کی مزاحمتی اننگز کے بدولت 207 رنز بنائے اور یوں جنوبی افریقا کو فتح کے لیے282رنز کا مشکل ہدف ملا، جو لارڈز جیسے میدان پر کسی امتحان سے کم نہ تھا، لیکن جنوبی افریقا کے نوجوان بلّے باز ایڈن مارکرم نے انتہائی دباؤ کے ماحول میں136رنز کی بے مثال اننگز کھیل کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔
دوسری جانب، کپتان ٹمبا باؤما نے شدید جسمانی تکلیف کے باوجود66رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر اپنی قیادت کا حق ادا کردیا۔ گرچہ چوتھے روز کے کھیل کے آغاز کے ساتھ ہی یہ محسوس ہورہا تھا کہ جنوبی افریقا کی ٹیم بالآخر27سال بعد آئی سی سی ٹائٹل جیتنے والی ہے، لیکن میچ شروع ہونے کے چند ہی لمحوں بعد 217کے مجموعی اسکور پر کپتان ٹمبابائوما، پیٹ کمنز کا شکار بن گئے۔
آسٹریلوی ٹیم ایک بار پھر پُرامید ہوگئی، مگر جنوبی افریقا کے بیٹرز مسلسل رنز بناتے رہے۔ بعدازاں241کے مجموعے پر ٹرسٹن اسٹبس اور میچ میں فتح کے بالکل قریب 276رنز پر ایڈن مارکرم ایک یادگار اننگز کھیل کرآؤٹ ہوگئے۔ اس سے قبل جنوبی افریقا کپتان ٹمباباؤما نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جو درست ثابت ہواکہ آسٹریلیا کی پوری ٹیم پہلی اننگز میں 212رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔تاہم، جنوبی افریقی بیٹرز بھی پہلی اننگز میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے کہ صرف 138رنز کر پوری ٹیم پویلین واپس لوٹ گئی۔
ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل درحقیقت اس وقت دل چسپ مرحلے میں داخل ہوا، جب دوسری اننگز کا آغاز ہوا۔ کینگروز نے 74رنز کی برتری کے ساتھ بیٹنگ شروع کی، لیکن آسٹریلیا کا ٹاپ اور مڈل آرڈر ایک پھر ناکام ہوا اور صرف 77رنز پر اُس کی7وکٹیں گرگئیں۔ اس دوران وکٹ کیپر بیٹر ایلکس کیری اور فاسٹ باؤلر مچل اسٹارک کی عمدہ پارٹنرشپ کے باعث ٹیم کو مجموعی اسکورآگے بڑھانے میں مدد ملی۔
ایلکس کیری 43رنز بنا کر 134 کے اسکور پر پویلین واپس لوٹ گئے، جب کہ میچل اسٹارک نے آخری وکٹ کی شراکت میں جوش ہیزل وڈ کے ساتھ 59رنز کی شان دار پارٹنر شپ میں ٹیم کو برتری کے ساتھ 282رنز تک پہنچا دیا۔جنوبی افریقی بیٹرز نے دوسری اننگز کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے اوسان بحال رکھے اور کینگروز کے ہر حملے کا جم کر مقابلہ کیا، ایڈن مارکرم نے 136 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی ، کپتان ٹمباباؤما نے 66 رنز بنائے، جب کہ ویان ملڈر 27رنز بنانے میں کام یاب رہے۔چوتھے دن کے آغاز پر جب جنوبی افریقا کو فتح کے لیے69 رنز درکار تھے، تو ابتدا میں وکٹیں گرنے سے تشویش ضرور پیدا ہوئی، لیکن کائل ویریانے نے فیصلہ کُن چوکا لگا کر نہ صرف میچ اختتام تک پہنچادیا، بلکہ کرکٹ کی تاریخ میں ایک نیا باب بھی رقم کردیا۔
اس تاریخی کام یابی کے بعد جنوبی افریقا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے بعد عالمی ٹیسٹ چیمپئن بننے والی تیسری ٹیم بن گئی، ساتھ ہی پروٹیز کو3.6 ملین امریکی ڈالر کی انعامی رقم بھی دی گئی، جب کہ فائنلسٹ آسٹریلیا کو 2.1 ملین ڈالرز ملے۔
بلاشبہ یہ کام یابی اُن سب داغوں کو دھوگئی، جو جنوبی افریقا کے ماضی کے دامن پر لگے تھے۔ 1999ء کا سیمی فائنل، جس میں آسٹریلیا سے ٹائی ہونے کے باوجود وہ باہر ہو گئے، 2003ء میں بارش کے سبب اور 2015ء کا وہ دل شکن لمحہ، جب نیوزی لینڈ نے آخری اوور میں سیمی فائنل جیتا،جب کہ2024ء کے ٹی ٹوئینٹی فائنل میں چھے وکٹوں کے ساتھ 30رنز کی ضرورت کے باوجود شکست نے ان کا دامن نہیں چھوڑا۔
بہرحال، یہ 27سال بعد جنوبی افریقا کا پہلا بڑا کرکٹ ٹائٹل ہے، جس پر لارڈز میں بھر پور جشن منایا گیا۔جنوبی افریقاکی اس تاریخی فتح کےاصل معمار ایڈن مارکرم تھے، جنھوں نے 282رنز کے مشکل ہدف کے تعاقب میں حوصلہ، بہترین حکمت ِعملی اور برداشت و حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ناقابل ِفراموش اننگز کھیلی۔
اس تاریخی فتح کا سوشل میڈیا اور کرکٹ کے حلقوں میں ایک تہوار کی طرح خیر مقدم کیا گیا۔ اُس روز جنوبی افریقا نے ثابت کیا کہ حقیقی جیت صرف ٹرافی کا حصول نہیں، بلکہ ماضی کو بُھلا کرحال میں وقار سے جینے کا نام ہے۔ ٹمباباؤما، جنہیں اکثر کم زور کپتان کا طعنہ دیا جاتا رہا، اب تاریخ کے اوراق پر اُس پہلے جنوبی افریقی کپتان کے طور پراپنا نام درج کرواچکے ہیں، جنہوں نے عالمی ٹیسٹ چیمپئن شپ ناقابلِ شکست رہتے ہوئے جیتی۔
یہ کام یابی صرف ایک کرکٹ ٹیم کی فتح نہیں، بلکہ ایک قومی اعزاز ہے، جو سخت جدوجہد، مسلسل کوشش و جستجو، ہمّت و استقامت اور اتحاد ویگانگت کا مظہر ہے۔ آج جنوبی افریقا کی ٹیم صرف عالمی چیمپئن نہیں، بلکہ اپنے ماضی کے زخموں کا مرہم بھی خود ہی بن چکی ہے۔ یقیناً، یہ وہ لمحہ ہے، جسے نسلیں یاد رکھیں گی۔