لاہور میں جعلی نکاح نامے کے خلاف قانونی جنگ لڑنے والی خاتون 10 سال بعد کامیاب ہو گئیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے بختاور بی بی کا ان کے چچا زاد معظم سے 2012ء کا نکاح نامہ جعلی قرار دے دیا۔
عدالتِ عالیہ نے فیملی کورٹ اور سیشن عدالت کے نکاح نامے کو درست قرار دینے کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد حسین چھٹہ نے ریمارکس میں کہا کہ نکاح نامے کی پوری کہانی ایک معمہ ہے، مبینہ نکاح ان کے گاؤں میں نہیں ہوا، والدین اور رشتے دار بھی اس میں شریک نہیں تھے، نکاح نامے کے گواہ معظم کے دوست جبکہ خاتون کے لیے اجنبی ہیں، نکاح رجسٹرار بھی خاتون اور اس کی رہائش گاہ کے متعلق نہیں جانتا۔
بختاور نے معظم کے ساتھ 28 مارچ 2012ء کے نکاح نامے کو چیلنج کیا تھا ۔
بختاور کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ والدین اور رشتے داروں کو بتانے پر پنچایت کے سامنے معظم نے غلطی مان کر طلاق دے دی تھی جس کے بعد میں نے 3 دسمبر 2012ء کو قربان سے شادی کر لی تھی۔
درخواست گزار بختاور کا یہ بھی کہنا ہے کہ قربان سے شادی کے 3 ماہ بعد معظم نے نکاح پر نکاح کی ایف آئی آر کروا دی تھی۔
عدالتِ عالیہ نے ریمارکس دیے کہ حیران کُن ہے کہ دونوں کزن ہیں لیکن نکاح کے گواہان رشتے دار نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ خاتون شادی سے انکار کرے تو اسے اپنے دعوے کے ثبوت میں مزید شہادت کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔