• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو شاعری کے بحرِ ناپیداکنار میں اقبال کی مثال ایک جزیرے کی سی ہے۔ وہ اس بحر کا حصہ ہے، لیکن اس میں گم نہیں، بلکہ اس سے الگ اپنی ایک قائم بالذات شناخت رکھتا ہے۔ اس بحر میں سربرآوردہ موجیں امڈتی رہی ہیں، لیکن یہ جزیرہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ اس کے رنگ اور موسم سب اس کے اپنے ہیں اور الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ سمندر کی موجوں کا اپنا اپنا خروش اور اپنی اپنی گونج ہے اور اس جزیرے کی ہواؤں کا اپنا ایک آہنگ۔ سمندر کی لہروں کے دامن میں ہیرے موتی ہیں تو اس جزیرے کی مٹی میں پوشیدہ خزانے۔ یوں تو یہ دونوں باہم مربوط ہیں، لیکن دونوں کی الگ ہستی ہے اور جداگانہ شناخت۔

اقبال کے افکار و تصورات کی تشکیل و تعمیر میں جس جوہر نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، وہ رسالت مآبﷺ کی سیرت و کردار ہے۔ اقبال نے فکر و احساس کی ہر سطح پر اس کا نہایت گہرا اثر قبول کیا ہے۔ چناں چہ اقبال کے فکر و فن کا مرکزی دھارا اسی اثر کی قوت سے متعین ہوتا ہے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اقبال کے فکری سانچے میں برقی رو کی طرح دوڑنے والے اس احساس نے ان کے یہاں مجرد تصور کے طور پر راہ نہیں پائی۔ اس کے برعکس یہ اُن کے یہاں ایک زندہ تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا ایک شعرملاحظہ کیجیے:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

اور پھر اس شعر پر یہ نظم پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں

عقل و عشق، خودی و خود آگاہی، حیات و مرگ، فنا و بقا، اجتہاد و انقلاب اور عروج و زوال سے لے کر اقبال کے عہد تک کے فکری، سیاسی، سماجی اور معاشی تصورات و نظریات جیسے مابعدالطبیعیات، سوشلزم، سیکولرزم اور جمہوریت تک آپ جس زاویے سے چاہے دیکھ لیجیے، اُن کی دانش و بینش کا تقریباً سارا نمایاں منظرنامہ اور اُن کے افکار و تصورات کا دائرہ جس سرچشمے سے روشنی حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے، وہ آپﷺ کی ذاتِ گرامی ہے،لہٰذا مطالعے کے لیے فکر و شعور اور جذبہ و احساس کا جو رُخ بھی سامنے رکھا جائے، سخنِ اقبال پر اسی سرچشمے کی چھوٹ پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اب اگر اس لحاظ سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نعت گو شعرا میں اقبال کا مقام کس قدر بلند اور کتنا منفرد ہے۔

اقبال سے پہلے اردو کی شعری روایت دراصل غزل کی روایت ہے، اور یہ اتنی توانا اور ایسی مستحکم روایت ہے کہ اس نے ہند اسلامی تہذیب اور ثقافتی مظاہر کی صورت گری میں بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اقبال کے یہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ غزل کا قوام ہی بدل گیا ہے۔ ’’بالِ جبریل‘‘ کی غزلیں پڑھ کر غور کیجیے کہ وہ اپنے مزاج، رنگ، اسلوب، آہنگ، موضوعات اور کیفیات میں اردو غزل کی روایت سے کیا علاقہ رکھتی ہیں۔ اسی طرح ’’شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘، ’’مسجدِ قرطبہ‘‘، ’’ذوق و شوق‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ جیسی نظموں کو دیکھ کر فیصلہ کیجیے کہ ہماری شعری روایت کے تسلسل میں یہ نظمیں کس طرح دیکھی جاسکتی ہیں۔ 

بعینہٖ معاملہ اقبال کی نعت کا بھی ہے۔ یہ اردو نعت کی عوامی روایت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ یہ اس روایت کا حصہ ہے جو مابعد الطبیعیاتی اور فکری تصورات کو معرضِ بیاں میں لاتی ہے۔ تاہم اپنے موضوعات، یعنی فکری کونٹنٹ اور اپنے اسلوب و آہنگ، یعنی جمالیاتی اظہار میں مکمل طور سے اپنی انفرادیت کا ثبوت دیتی ہے۔ شعرِ اقبال کا یہ دریچہ جس سمت میں کھلتا ہے، اس کا منظرنامہ تمام تر اقبال ہی سے موسوم ہے۔ بات کی وضاحت کے لیے محض چند اشعار دیکھیے:

لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ ، تیرے محیط میں حباب

عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرّۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے

عقل غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب

حقیقت یہ ہے کہ صرف یہی چند اشعار بھی اقبال کی نعت کے فکری تناظر اور اسلوبیاتی مزاج کو سمجھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اقبال کی یہ نعت صرف اُن کے شعری حاصلات ہی کا نہیں، بلکہ اردو کے بہترین نعتیہ ادب کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔

اقبال جیسے ایک بڑے شاعر کا مقام و مرتبہ اور اُس کے فن کی قدر و منزلت کا تعین اُن تصورات کی تشکیل اور سوالات کے جوابات پر منحصر ہوتا ہے جو اِس جہانِ رنگ و بو میں انسان کی حیثیت اور کائنات اور خالقِ کائنات سے اُس کے رشتے کی بابت تخلیقی سطح پر اس کے یہاں اظہار پاتے ہیں۔ یہ سوالات اُس شاعر کے یہاں انسانی وجود اور اس کی روح کے رشتے، کائنات میں اس کی زندگی کی معنویت اور اس کی تقدیر کی نوعیت اور حقیقت کا تعین کرتے ہیں۔

اقبال نے اپنے سیاسی افکار کسی تصنیف، رسالے یا خطبے کی صورت میں یک جا اور جامعیت کے ساتھ پیش نہیں کیے ہیں۔ تاہم اُن کے یہاں نظم و نثر میں یہ موضوع بار بار ابھرتا ضرور رہا ہے۔ ظاہر ہے، اس کا سبب فرد سے لے کر عالمی سطح تک انسانی زندگی کا وہ منظرنامہ تھا جس میں اقبال کے شعور نے آنکھ کھولی اور حالات و حقائق کا مشاہدہ کیا۔ اقبال کی امنگوں کا مرکز مشرق تھا، لیکن اُس کا زوال بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ مغرب کی برتری ہر میدان میں تسلیم کی جاچکی تھی۔ 

چناںچہ ہمارے یہاں اقبال کے سیاسی تصورات کا مطالعہ مغربی افکار کی روشنی میں کرنے کا رُجحان عام رہا ہے۔ افلاطون، ارسطو، کانٹ اور ہابز وغیرہ کے تناظر میں اقبال کے سیاسی نظریات کو دیکھنے اور سمجھنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں، وہ تمام تر بے مصرف تو نہیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ، بلکہ اُن کے مقابلے میں اگر ہم غزالی، رازی اور ابنِ خلدون اور سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے تناظر میں اقبال کے سیاسی تصورات اور رجحانات کا جائزہ لیں تو کہیں بہتر سطح کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ اندازِ نظر اور طریقِ کار اقبال کی سیاسی فکر کو اس کے ملی اور قومی سروکار کے ساتھ صراحت سے اجاگر کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر عقل و عشق اقبال کے نظامِ خیال کے بہت بنیادی استعارے ہیں۔ اس جہانِ رنگ و بو میں انسانی تگ و تاز کی ساری معنویت کا انحصار اقبال کے نزدیک اس امر پر ہے کہ اُس کے مرکز میں عشق کارفرما ہو۔ مرکز کا یہ اصول بھی اقبال نے کہیں اور سے نہیں طواف میں مرکز کی معنویت سے لیا ہے۔ چناںچہ عشق، اقبال کے یہاں ایمان کے درجے میں آجاتا ہے، یعنی یقین اور وابستگی کی ایک غیر مشروط اور کامل حالت۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشاے لبِ بام ابھی

—————

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق

—————

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیا

عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا

عشق تمام مصطفیا عقل تمام بولہب

اب دیکھیے، عشق خواہ آتشِ نمرود میں کود رہا ہو، مسلمان ہونے کی علامت ہو یا سربسر مصطفیﷺ ہو، مراد یہ ہے کہ اقبال کے یہاں عشق دراصل خیرِ کامل ہے۔ وجہ یہ کہ اس کی نسبت کلیتاً آپﷺکی ذاتِ گرامی سے ہے۔ اگر ایک سوال پر بھی غور کرلیا جائے تو کیا مضائقہ ہے، وہ یہ کہ اقبال کے یہاں فکری تشکیلات کا ماخذ بننے والا یہ عشق کیا وہی یا اُس سے ملتی جلتی کوئی شے ہے، جسے ہم عشق کے عنوان سے اردو شاعری، بلکہ دنیا کی ساری شاعری میں پڑھتے آئے ہیں؟ 

سوال ذرا بڑا ہے، لیکن ایک اصولی، سادہ اور مختصر جواب ہے،قطعاً نہیں۔ یہ عشق فی الاصل ایمانِ کامل کا مجمل اظہار ہے، اور اقبال کے یہاں یہ ایمان پیدا ہوا ہے شعائرِ اسلام کی جامع تفہیم اور تاریخِ انسانی کے اس گہرے ادراک سے کہ آپﷺتمام جہانوں، سب زمینوں اور سارے زمانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں۔ یہ ایک مسلمان کا ایمان ہے اور اُس وقت جب بندۂ مومن، مردِ آگاہ کو تکوینِ الٰہیہ کا شعور القا ہوجائے تب اسے یہ ایمان نصیب ہوتا ہے۔ اس لیے ’’عشق تمام مصطفیﷺ‘‘ یا ’’عشق خدا کا رسول۔۔۔‘‘ دراصل مدحِ رسولِ کریمﷺہے، یعنی نعت کا قرینہ ہے۔

اقبال کی نعت اپنی فکر اور اسلوب دونوں لحاظ سے اردو نعت کی شعری روایت میں اسی طرح انفرادی حیثیت کی حامل ہے جس طرح ان کی شاعری ہماری پوری شعری روایت میں۔ ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اقبال کی نعت اپنی یگانگت اور انفرادیت کا ایک اور بہت اہم حوالہ یہ رکھتی ہے کہ اقبال نے جس طرح نعت کی موضوعاتی وسعت کو کائناتی سطح تک پھیلایا اور اس کی لے کو سوزِ دروں اور جذبِ باطن سے ہم آہنگ کیا ہے، اسی طرح انھوں نے نعت کی صنفی اور ہیئتی قیود کو بھی کراں تا بہ کراں کشادہ کیا ہے کہ اُس میں وجود و شہود، زمین و زماں، شاہد و مشہود اور حضوری و سپردگی کے تصورات سے تجربات تک تہ در تہ عناصر مل کر ایک ایسا کلامیہ تشکیل دیتے ہیں کہ جو کشف و الہام کی سطح کو پہنچا ہوا معجزۂ فن بن جاتا ہے۔ 

فن کی یہ نمود بھلا کیوں کر ایک روایتی پیرائے میں معرضِ بیاں میں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے یہاں رواں دواں نظم کے کسی ایک مرحلے پر نعت کا ایک شعر آتا ہے اور نظم کی پوری کیفیت و معنویت کو یکسر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے مروّجہ سانچے میں نعتیہ اشعار پیش نہیں کیے ہیں کہ وہ جانتے ہیں، دو ایک شعر یا چند ایک مصرعے نظم کے مکمل سلسلۂ خیال کو حضوری کے تجربے سے ہم کنار کرسکتے ہیں، پورے کلام کو نعت کے اسلوب میں ڈھال سکتے ہیں اور سارے فکری تصورات کو نعت کی تحویل میں دے سکتے ہیں۔ فن کی یہی نمود شعر و فکرِ اقبال کی بلند اقبالی کا جواز ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا شے ہے جو اقبال کے حرفِ سخن میں شامل ہوتی ہے اور اس کی تاثیر کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ سوال اس مقام پر بہت سادگی سے اور بہت سرسری انداز میں پوچھ لیا گیا ہے، لیکن یہ بہت بنیادی نوعیت کا استفسار ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اس کلید سے تفہیمِ اقبال کا نیا در کھل سکتا ہے، وہ تو خیر کھل ہی جائے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے ذریعے ہند اسلامی ادب و شعر کی وہ جہت بھی آشکارا ہوتی ہے جو بلا تفریقِ رنگ و نسل اور بلاامتیازِ ملک و قوم پوری ملتِ اسلامیہ کے شعور و احساس کو ایک مشترک مرکز سے جوڑ دیتی ہے۔ اقبال کی طرزِ سخن میں شامل ہونے والی وہ شے ہے، حجازی لے۔ یہاں حجازی لے سے مراد ہے آنحضورﷺ سے نسبت و تعلق کا وہ اظہار جو زمانوں اور زمینوں کے تعینات سے ماورا کرتے ہوئے صرف شاعر کو ہی نہیں، بلکہ اُس کے قاری کو بھی سر بہ سر حضوری کی بے پایاں اور وجد آفریں سرشاری سے ہم کنار کرتا ہے۔ تبھی تو اقبال نے افتخارِ جاں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری

یہی وہ لے ہے جو کلامِ اقبال میں آثار و افکار سے لے کر اسلوبیات و جمالیات تک تخلیقِ فن کے پورے منظرنامے میں برقی رَو کی طرح زندگی کی وہ حرارت جگاتی ہے جو شعور و احساس کی تشکیل و تعبیر اور اظہار و ابلاغ کو معجزۂ فن بنا دیتی ہے۔ یہی لے اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتی ہے کہ اقبال کے یہاں حرفِ نعت محض رسمِ محبت و عقیدت کا مظہر نہیں ہے، بلکہ یہ اُس مرکز سے رشتے کا اظہار ہے جسے اقبال نے عشق کہا ہے، جو انسان کے سینے میں دل کی طرح دھڑکتا ہے، اُس کی رگوں میں خون کی گردش اسی عشق کی قوت پر منحصر ہے، اور یہی ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کی اس محیط و بسیط کائنات میں انسان کے وجود کو بلند رتبہ بناتی ہے۔ اس شعور کا اظہار اقبال کے کلام میں جا بہ جا ہوتا ہے اور اُن کیفیات و علائم کے ساتھ کہ جو اُن کے فن کی سطح اور سخن کی معنویت کے دائرے کو کائنات گیر بنا دیتے ہیں۔ لاریب، یہ صرف اور صرف حرفِ نعت کا فیضان ہے۔

در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است

آبروئے ما ز نامِ مصطفی است

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

اقبال کی ساری شاعری اسی حرفِ نعت کی دولتِ پرمایہ سے مالا مال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ہماری ہند اسلامی تہذیب اور اُس کی ادبی و فکری روایت میں جس حجازی لے کو شامل کیا اُس نے اردو کی شعری روایت کے کیف و کم کو اُس تغیر سے آشنا کیا کہ وہ کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اسی کیف و کم کا اثر ہے کہ اقبال کی شاعری سر بہ سر ایک ایسے سانچے میں ڈھل گئی کہ جس نے اُن کے حرفِ شعر کو حرفِ نعت کی اُس معراج تک پہنچا دیا کہ جہاں اُن کے بڑے بڑے افکار و تصورات کی تشکیل نعت کے حرفِ باریاب سے ہوئی۔ 

یہ اسی جوہر کی نمود ہے کہ اقبال کی شاعری تاریخ و تہذیب کے حقائق و تجربات اور مذہب و فلسفہ کے تصورات، اشارات اور کنایات کو اس طرح اپنے اندر سمولیتی ہے کہ وہ مجرد نہیں رہتے، بلکہ فکرِ محسوس کے پیکر میں ڈھل جاتے ہیں۔ یوں وہ بہ یک وقت قلب و نظر دونوں کے لیے بالیدگی اور روشنی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔

نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی