برطانوی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر اسکاٹ لینڈ میں دوسرا آزادی ریفرنڈم نہیں کرایا جاسکتا۔
اسکاٹش نیشنل پارٹی کی جانب سے اگلے سال اکتوبر میں دوبارہ آزادی ریفرنڈم کرانے کی کوشش کو سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگرچہ مجوزہ ریفرنڈم کی حیثیت صرف مشاورتی ہے لیکن اس کے اہم سیاسی مضمرات کی وجہ سے کسی بھی ایسے اقدام کو پارلیمانی منظوری درکار ہوگی۔
اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا اسٹرجن نے عدالتی فیصلہ تسلیم کیا لیکن کہا کہ ایسا قانون جو برطانوی پارلیمان کی اجازت کے بغیر اسکاٹ لینڈ کو اپنے مستقبل کے انتخاب کا اختیار نہیں دیتا، در حقیقت یہ واضح کرتا ہے کہ یونائیٹڈ کنگڈم رضاکارانہ اتحاد نہیں ہے۔
اُنہوں نے برطانوی حکومت پر جمہوری حقوق صلب کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اب وہ جنوری 2025 میں اگلے برطانوی عام انتخابات کو پراکسی اسکاٹش ریفرنڈم کے طور پر منوانے کی کوشش کریں گی۔
انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان 1707 سے سیاسی اتحاد قائم ہے لیکن بہت سے اسکاٹش شہری اسے انگلینڈ کے حق میں بھاری اور یکطرفہ تعلق سمجھتے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کی اکثریت نے بریگزٹ کے خلاف بھی ووٹ دیا تھا جو بیکار گیا۔ برطانیہ سے علیحدگی کیلئے پہلا اسکاٹش ریفرنڈم 2014 میں کرایا گیا تھا جس میں 55 فیصد ووٹروں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔