• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا بچے اسکول میں اپنی ذہنی استعداد کے مطابق سیکھ رہے ہیں؟

ہمیں تعلیم کے بارے میں مختلف نقطۂ نظر سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ عالمی وبائی مرض کووِڈ-19سے پہلے ہی دنیا بھر کے کروڑوں بچے اسکول سے باہر تھے اور اسکول جانے والے مزید کروڑوں بچوں کی سیکھنے، سمجھنے اور پڑھنے کی صلاحیت محدود تھی۔ وبائی مرض نے اس بحران کو مزید گمبھیر اور گہرا کردیا ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کے پڑھائی کے دو ٹریلین گھنٹے ضائع ہوئے ہیں۔

اسکول جانے والا ہربچہ نہیں سیکھ رہا

یونیسیف کی جانب سے 32 کم اور متوسط آمدنی رکھنے والے ممالک کے سروے پر مشتمل تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان ممالک میں اکثر بچے بنیادی خواندگی اور ہندسوں کے علم سے عاری ہیں۔ سیکھنے کے مواقع میں عدم مساوات سے سب سے زیادہ غریب برادریاں متاثر ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان ملکوں میں تیسری کلاس کا ہر تین میں سے صرف ایک بچہ (8-9سال کی عمر) سادہ متن پڑھ سکتا ہے جب کہ ہر پانچ میں ایک سے بھی کم بچہ بنیادی ہندسوں پر عبور رکھتا ہے۔ 

وہ بچے جو معیاری تعلیم حاصل نہیں کرپاتے، وہ اپنی زندگیوں کو پوری استعداد کے مطابق نہیں گزارپاتے، انھیں مواقع نہیں مل پاتے، جس کے نتیجے میں ان ممالک کی معیشتیں بھی خسارے میں رہتی ہیں۔ یونیسیف کی جانب سے سروے کیے جانے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جہاں صرف صوبہ پنجاب کا سروے شامل کیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے 32فی صد بچے روانی سے متن پڑھ سکتے ہیں۔ ہندسوں کے بنیادی علم کے حوالے سے سروے میں صوبہ پنجاب شامل نہیں ہے۔

رپورٹ میں حکومتوں اور شراکت داروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کریں۔ اس کی تین ترجیحات ہونی چاہئیں:

٭ ہر بچے کی بنیادی معیاری تعلیم اور کلاس روم تک رسائی یقینی بنانا

٭ انھیں سیکھنے کے معیاری اور مؤثر وسائل فراہم کرنا تاکہ وہ اسکول میں گزارے ہوئے اپنے وقت میں زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں

٭ بچوں کے تحفظ اور بہبود کو یقینی بنانا

دنیا بھر کے ماہرین نتائج پہلے ہی اخذ کرچکے ہیں۔ وہ ہمیں دِکھا رہے ہیں کہ اس مسئلے کو پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کے لیے سلوشنز موجود ہیں۔

بچوں کے اسکول سے دور ہونے کی وجہ؟

مختلف بچوں کے اسکول سے دور رہنے کی وجوہات الگ الگ ہیں، جن میں مذہبی، ثقافتی رجحان اور خاندان شامل ہیں۔ ہمیں مقامی مسائل حل کرنے کے لیے مقامی مہارت، جب کہ خاندانوں کے سیفٹی نیٹ کے لیے مضبوط برادریاں (کمیونٹیز) درکار ہیں۔ جب ’کیمپئن فار فیمیل ایجوکیشن‘ نامی غیرسرکاری تنظیم نے 1990ء کے عشرے میں زمبابوے میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کام شروع کیا تو اس نے اسکالرشپ کی رقوم خاندانوں کو دینا شروع کیں تاکہ وہ لڑکوں کے ساتھ اپنی لڑکیوں کو بھی سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول بھیجیں۔ 

لیکن خاندانوں کا مسئلہ صرف اسکالرشپ کا حصول نہیں تھا: انھیں اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ لڑکیاں خود کو محفوظ سمجھیں اور اسکول میں رہیں۔لرنر گائیڈ پروگرام کے تحت، جو لڑکیاں اس اسکالرشپ کے ذریعے تعلیم مکمل کرلیتی ہیں، وہ اپنی برادریوں میں خطرات سے دوچار لڑکیوں کو ’وَن-آن-وَن‘ تعلیم اور سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔ اس وقت اس مہم کے تحت لیڈرشپ نیٹ ورک میں تعلیمی خدمات فراہم کرنے والی ایسی فارغ التحصیل لڑکیوں کی تعداد دو لاکھ آٹھ ہزار تک جا پہنچی ہے۔

بنگلادیش میں بھی ایسی ہی ایک غیرسرکاری تنظیم بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے۔ کووِڈ-19لاک ڈاؤن کے دوران اس این جی او نے بنگلہ دیش میں ایک مہم کا آغاز کیا جس میں سادہ موبائل فون کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ مہم کے تحت اس مہم میں شامل تمام خاندانوں کو سماجی اور جذباتی سپورٹ اور کھیل پر مبنی سرگرمیوں کا نصاب فراہم کرنے کے لیے ہر ہفتے20 منٹ دورانیہ کی کال کی جاتی تھی۔

سیکھنے کا عمل بچے کی عمر یا گریڈ سے بالاتر

بھارت میں پراتھم نامی ایک غیرسرکاری تنظیم تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لیے یہ جاننے نکلی کہ بچے اسکولوں میں کتنا اچھا سیکھ رہے تھے۔ تنظیم کے پہلے سروے میں بھارت بھر کے دیہی علاقوں میں سالانہ چھ لاکھ بچوں کا سروے کیا جاتا ہے۔ اس کے تازہ سروے ’’اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کئی بچے اسکول تو جاتے ہیں لیکن وہ بنیادی صلاحیتوں سے ہی محروم ہیں۔ اس کے نتیجے میں تنظیم نے ’’ٹیچنگ ایٹ دی رائٹ لیول‘‘ (TaRL)اپروچ تیار کی ہے۔

اس اپروچ کا استعمال کرتے ہوئے اساتذہ، بچوں کی درجہ بندی ان کی کلاس کے بجائے ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں کے مطابق کرتے ہیں۔ وہ بنیادی اہداف کے حصول کے لیے وسائل اور سرگرمیوں کو استعمال میں لاتے ہیں جیسے روانی سے پڑھنا اور بنیادی ریاضی کی سمجھ بوجھ۔ مطالعہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بچوں میں ایک بار یہ بنیادی صلاحیتیں پیدا ہوجائیں تو وہ زندگی بھر ان کے ساتھ رہتی ہیں اور وہ اسکول میں زیادہ تیزی سے سیکھنے لگتے ہیں۔

بچے کس ماحول میں سیکھنا پسند کرتے ہیں؟

اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچےاپنی پوری استعداد کے مطابق تعلیم حاصل کریں تو ہمیں انھیں کلاس روم کا ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا ، جس میں اساتذہ انھیں خوش آمدید کہتے ہوں اور انھیں اپنے اساتذہ سے ہر طرح کی سپورٹ حاصل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں ایک مشمولہ کلاس روم تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جس میں اساتذہ، والدین اور کمیونٹی مشترکہ لائحہ عمل کے تحت کام کریں۔