پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر ایک مسلسل بحران میں مبتلا رکھنے اور اس کے نتیجے میں سقوطِ مشرقی پاکستان سے لے کر پاکستان کے بقیہ حصّے میں عدم استحکام کے پیچھے جو قوتیں کار فرما ہیں، انہوں نے ناصرف ہمارے ماضی بلکہ مستقبل کو بھی دھند لاکر رکھ دیا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد کچھ مراعات یافتہ طبقوں نے عوامی حاکمیّت کو روکنے کے لیے جو حربے استعمال کیے اب وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے چوہدری مونس الہٰی نے اپنے انٹرویو میں جو ہوش رُبا انکشافات کیے ہیں، انہوں نے قومی سطح پر تہلکہ مچا دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب بظاہر عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران فوجی اسٹیبلشمنٹ نے خود کو نیوٹرل رکھنے کا اعلان کیا ہوا تھا، اس وقت کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں خود کہا تھا کہ وہ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ حالانکہ وہ پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کا اعلان بھی کر چکے تھے اور اس سلسلے میں وہ جناب آصف زرداری کے پاس مٹھائی بھی لے کر گئے اور دُعائے خیر بھی کی تھی۔ یہی نہیں اس سے کچھ دن پہلے پرویز الہٰی نے عمران خان کے خلاف ایک طنزیہ انٹرویو بھی دیا تھا جس میں انہیں نااہل اور ناتجربہ کار ثابت کرنے کے لیے کہا تھا کہ عمران کی تو آج تک اسٹیبلشمنٹ نے ’نیپیاں‘ بدلی ہیں، انہیں خود سے کچھ کرنا نہیں آتا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اگلے دن چوہدری پرویز الہٰی عمران خان سے ملے اور ان کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کر لیا۔ بقول عمران خان پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو پنجاب کا سب سے بڑا عہدہ دے دیا گیا اور عمران خان کو ’نیپیاں‘ بدلنے کا طعنہ دینے والے پرویز الہٰی نے ناتجربہ کار اور نااہل عمران خان کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا۔ جو لوگ چوہدری برادران کی سیاست کو سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر سیاست کرتے ہیں۔ وہ لوگ حیران تھے کہ ایک جانب جب بظاہر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا سیم پیج پھٹ چکا ہے، چوہدری صاحب نے عمران خان کے ساتھ جانے کا کیوں فیصلہ کیا؟ جبکہ دورانِ حکومت مسلم لیگ ق اور عمران خان کے درمیان مسلسل اختلافات کی خبریں آتی رہیں، خاص طور پر مونس الہٰی کے حوالے سے جنہوں نے ایک مرتبہ خود کہا کہ شاید عمران خان کو میری شکل پسند نہیں۔ انہیں کافی منتوں کے بعد جو وزارت دی گئی، اس سے بھی وہ مطمئن نہیں تھےپھر یکایک کیا ہوا کہ چوہدری صاحب نے دوبارہ عمران خان کا دامن پکڑ لیا؟ میرا خیال تھا کہ فوج کے اندر عمران کے حامی گروپ، جس کی قیادت جنرل فیض حمید کر رہے تھے، نے یہ گٹھ بندھن کروایا ہوگا۔ تاہم چوہدری مونس الہٰی کے اس بیان نے کہ ہم نے جنرل باجوہ کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا یقیناً ہر پاکستانی کو حیران کر دیا ہے کہ جنرل باجوہ دہرا گیم کھیل رہے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک عمران حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں دیگر اتحادیوں پر بھی دباؤ ڈالا گیا بلکہ جناب آصف زرداری اور شہباز شریف کو بھی تحریکِ عدمِ اعتماد واپس لینے کے لیے کہا گیا۔ صرف یہی نہیں پی ڈی ایم کی پنجاب حکومت کو گرانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ نے جو عجیب و غریب فیصلے دیے کہ فلور کراس کرنے والے ممبر کی رکنیت بھی ختم ہو گی اور ووٹ بھی نہیں گنا جائے گا، ایک جگہ عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے پارٹی صدر اور ایک جگہ اس کے برعکس پارلیمانی لیڈر کو اپنے ممبرانِ اسمبلی کو نامزد یا اہل قرار دینے کا متضاد فیصلہ بھی یقیناً اسی دباؤ کا نتیجہ تھا جس کے تحت بحران کو حل کرنا نہیں بلکہ طوالت دینا تھا۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اپنی زبان سے کسی صورت توسیع نہ لینے کے اعلان کے باوجود عمران خان کی زبان سے 6 ماہ کی توسیع کا کہلوانا، تاکہ اس وقت تک جنرل فیض حمید سینئر جنرل بن جائیں، بھی ’پراجیکٹ عمران‘ کا حصّہ تھا جسے بظاہر اسٹیبلشمنٹ ترک کر چکی تھی۔ جنرل باجوہ اپنی ذاتی حیثیت اور مفادات کے لیے وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہے۔ جنرل باجوہ کے جانے اور عمران کے دیگر حامی جرنیلوں کے جانے کی خبروں کے بعد متوقع تبدیلیوں اور اس کے تناظر میں اپنی حکمتِ عملی ترتیب دینے کی پیش بندی کے طور پر مونس الہٰی نے یہ انکشاف بظاہر جنرل باجوہ کے خلاف پی ٹی آئی کے گالم گلوچ بریگیڈ کے جواب میں کیا ہے کہ جنرل باجوہ عمران خان کے مخالف نہیں، وہ محسن تھے، جنہوں نے ان کے لیے دریاؤں کے رُخ موڑ دیے لیکن اس میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ حالات کے تحت چوہدری صاحبان بھی اپنا رُخ بدلنے کے لیے تیار ہو گئے جس میں انہوں نے ایک معصومانہ خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم جون کا بجٹ دے کر جائیں۔ گویا انہوں نے یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ اگر عمران خان انہیں جون تک خدمت کا موقع نہیں دیتے تو وہ کسی اور کو بھی اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان انہیں دل سے پسند نہیں کرتے اور اگر وہ پنجاب میں اکیلے حکومت بنانے کے قابل ہو گئے تو وہ انہیں گھاس نہیں ڈالیں گے۔ اس سب سے قطع نظر یہ بھی پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک حکومت کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں ایک واضح تقسیم نظر آئی ہے۔ جس کی وجہ سے بحران کا دورانیہ بہت طویل ہو گیا، جس سے پاکستان کی قومی سالمیت پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ کے لیے سیاست سے دوری اختیار کر لینی چاہیے کیونکہ ہماری 75 سالہ تاریخ کا یہی واحد ’سبق‘ ہے۔