• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رچی بسی ہوئی اُردو زبان کی خوشبو پھیلی چہار سُو‘‘

آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں علم و ادب کی شمعیں روشن کرنے کا سالانہ اجتماع پوری آب و تاب کے ساتھ اتوار ۴ جنوری کو اختتام پذیر ہوا۔ یکم جنوری کوافتتاحی اجلاس ہوا تھا، جس کےمہمان خصوصی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تھے، ان کے دائیں جانب آرٹس کونسل کے صدرمحمد احمد شاہ اور بائیں جانب صوبائی وزیر ثقافت سید سردار شاہ کو براجمان دیکھ کر، انور مقصود نے اسے شاہی مجلس قرار دیا۔ 

اس سے پہلے آرٹس کونسل میں سارا سال جاری رہنے والی سرگرمیوں پر مشتمل ڈاکیومینٹری دکھائی گئی توانورمقصود یہاں بھی خاموش نہ رہ سکے، مائیک پر آ کر کہنے لگے ’آپ نے فلم مولا جٹ ملاحظہ کی‘۔ جس پر حاضرین نے بھرپور قہقہہ لگایا اور پھر یہ قہقہے پورے چار دن وقفے وقفے سے گونجتے رہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام پندرھویں عالمی اُردو کانفرنس کا احوال

افتتاحی اجلاس میں کلیدی مقالے ناصر عباس نیئر اور آغا خان یونیورسٹی لندن کی ایلکس بیلم نے پیش کیے۔ ناصر عباس نیئر نے نئے زمانے اور نئی ٹیکنالوجی کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے انتہائی اہم سوالات اُٹھائے اور پھر خود ہی ان کا مدلل جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمارٹ ٹیکنالوجی ہمارے بارے میں اتنا کچھ جان چکی ہے جتنا ہم خود بھی اپنے آپ کو نہیں جانتے۔ ہم ایک طرح سے ڈیجیٹل دُنیا کی نوآبادی بن چکے ہیں۔

سترہویں صدی میں کہا جاتا تھا کہ ’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں‘۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں  ایشیائی اور افریقی اقوام سمجھتی تھیں کہ ’ہم مزاحمت کرتے ہیں اس لیے ہم ہیں‘۔ آج پوری دُنیا یک آواز ہے کہ ’میں شیئر کرتا ہوں، اس لیے میں ہوں‘۔ نئی ٹیکنالوجی نے ہماری خلوت چھین لی ہے۔اب ہماری دنیا میں برہنہ جلوت کے سوا کچھ بھی نہیں رہا۔ ناصر عباس نیئر نے یہ بھی کہا کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے لیکن دوسروں کے لیے اس رائے کو خنجر اور کلہاڑی نہیں بننا چاہیے۔

اس موقع پر آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ نے اعلان کیا کہ وہ اگلے ماہ سندھ حکومت کے تعاون سے گوادر میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول منعقد کرنے جا رہے ہیں۔ فروری میں لاہورکا رخ کریں گے اور جولائی میں کینیڈا اور امریکا میں ادبی میلوں کی بہارلے کر جائیں گے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے درخواست کی کہ آرٹس کونسل سے متصل فیضی رحمین آرٹ گیلری کی عمارت جو ایک بھوت بنگلے کی صورت اختیار کر گئی ہے، اسے آرٹس کونسل کے حوالے کر دیا جائے تاکہ اسے بہترین مصرف میں لایا جا سکے۔

صوبائی وزیرثقافت سید سردار شاہ نے محمد احمد شاہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ،انہوں نے آرٹس کونسل کو حقیقی معنوں میں ایک ثقافتی مرکز بنادیا ہے۔ سندھ حکومت اب احمد شاہ کی رہنمائی میں حیدرآباد، لاڑکانہ اور میرپور خاص میں آرٹس کونسل جیسےفعال ادارے بنانے جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں اسکولوں میں آرٹ، رقص اور موسیقی سکھانے کے لیے اساتذہ بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ نے ہمیشہ امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے۔ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے۔ ہم چاہیں بھی تو کسی کے ساتھ بدتمیزی یا بد تہذیبی سے پیش نہیں آ سکتے۔ معروف شاعرہ زہرا نگاہ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گرتی ہوئی ساکھ نے عام آدمی کی عزتِ نفس کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ماحول میں اردو کانفرنس جیسے بڑے ایونٹ کا انعقاد انتہائی جرات مندانہ اقدام ہے۔

افتتاحی اجلاس کے بعد ’اقبال اور قوم‘ کے عنوان سے گفتگو کا سیشن ہوا۔ اس کے بعد ضیا محی الدین نے ’اُردو کا شاہکار ادب‘ کے نام سے پڑھت کا مظاہرہ کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اقبال کے حوالے سے غلام احمد پرویز کی تقریر پڑھ کر سنائی۔ اس کے بعد فیض احمد فیض کے بارے میں جمیلہ خاتون کی یادداشتوں کا کچھ حصہ پڑھا اور پھر مشتاق احمد یوسفی،ابن انشا اور شان الحق حقی کی تحریریں۔ ضیامحی الدین کی آواز میں زہرا نگاہ، شیخ ایاز اور اخترالایمان کی نظموں سے بھی حاضرین خاصے محظوظ ہوئے۔

اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اظہار خیال کرتے ہوئے
اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اظہار خیال کرتے ہوئے 

آرٹس کونسل کے زیراہتمام ہونے والی یہ پندرھویں عالمی اُردو کانفرنس تھی جس میں اُردو زبان و ادب ،شاعری، ناول، افسانہ، کہانی، تنقید، ثقافت، صحافت،تاریخ اور فنون کے حوالے سے سیر حاصل گفتگوہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی ادب کی موجودہ صورت حال بھی زیربحث رہی۔ بچوں کے ادب پر الگ سیشن ہوا،جبکہ یادِ رفتگاں کے عنوان سے ہونے والی نشست میں شمس الرحمان فاروقی، شمیم حنفی، فرہادزیدی، گوپی چند نارنگ، امداد حسینی اور فاروق قیصر کو یاد کیا گیا۔ شمیم حنفی کے بغیر آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی عالمی اُردو کانفرنس ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ فرہاد زیدی بھی آرٹس کونسل کےدرودیوار پر جگمگاتے چراغوں کا حصہ تھے۔ آج ہم میں موجود نہیں تو ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

ایسےہی ایک سیشن میں ’خدا کی بستی‘ اور ’جانگلوس‘جیسے شاہکار ناول تخلیق کرنے والے ناول نگار شوکت صدیقی کی یادیں تازہ کی گئیں۔ اس موقع پر ان کے صاحبزادے ظفر صدیقی بھی موجود تھے۔ محمود شام بتا رہے تھے کہ شوکت صدیقی کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں جو یادگاری کمیٹی بنائی گئی ہےاس نے اپنی ابتدائی تجاویز مرتب کر لی ہیں۔ احمد شاہ نے اعلان کیا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان شوکت صدیقی کی صد سالہ تقریبات ملک بھر میں ایک جشن کی طرح منعقد کرے گی۔ نذیر لغاری نے شوکت صدیقی کے ابتدائی افسانوں اور ناول ’خداکی بستی‘ کے تخلیقی عوامل پر روشنی ڈالی جبکہ شکیل عادل زادہ نے ان کے ناول ’جانگلوس‘ کی سب رنگ میں قسط وار اشاعت اور بعدازاں پیدا ہونے والے قضیے کا قصہ بیان کیا۔

پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کے ایک سیشن میں توقیر چغتائی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ثروت محی الدین اور عاصمہ شیرازی
پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کے ایک سیشن میں توقیر چغتائی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ثروت محی الدین اور عاصمہ شیرازی  

معروف شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کے ساتھ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی گفتگو بھی خاصی دلچسپ تھی جبکہ شاعر عوام حبیب جالب کی کلیات کے حوالے سے منعقدہ سیشن میں لوگوں کی کثیر تعداد اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ حبیب جالب کی نظم ’دستور‘ آج بھی کتنی مقبول ہے۔ کشور ناہید بتا رہی تھیں کہ جب جنرل ایوب خان کے خلاف مادرِ ملت فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو حبیب جالب پہلے شخص تھے جنہوں نے فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کیا۔

ان کے جلسوں میں پہلے حبیب جالب اپنی نظم دستور سناتے تھے اور پھر فاطمہ جناح خطاب کرتی تھیں۔ جالب جیل میں تھے، جب ان کی رہائی کا پروانہ جاری ہوا تو انہوں نے اس وقت تک رہا ہونے سے انکار کر دیا جب تک ان کے ساتھی سیاسی قیدیوں کا رہا نہیں کیا جاتا۔ اس موقع پر حبیب جالب کی صاحبزادی طاہرہ حبیب جالب نے انہیں کے لحن میں نظم دستور سنا کر محفل گرما دی۔ انہوں نے حبیب جالب پر فلم بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔ انور مقصود نے دلچسپ پیرائے میں جالب سے ہونے والا خیالی مکالمہ پیش کیا۔مکالمہ بھی ایسا کہ حقیقت سے زیادہ قریب۔

ایاز فرید اور ابو محمد قوال کی پرفارمنس پر شائقین محظوظ ہورہے
ایاز فرید اور ابو محمد قوال کی پرفارمنس پر شائقین محظوظ ہورہے 

معروف صحافی حامد میر کے ساتھ ابصاکومل کی گفتگو کا سیشن بھی حاضرین کے اعتبار سے بھرپور تھا اور پھر حامد میر کی بے لاگ باتیں ایسی کہ ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ خواتین اور ہمارا سماجی رویہ کے عنوان سے ہونے والے سیشن کی نظامت عظمی الکریم نے کی۔ شرکائے گفتگو میں ناصرہ اقبال، نورالہدیٰ شاہ، مہتاب اکبر راشدی اور انیس ہارون شامل تھیں۔ مہتاب راشدی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون گھر سے باہر نکل کر کوئی مثبت کام کرتی ہے جو معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں تو اس میں قصور عورت کا نہیں بلکہ معاشرے کا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک مرد اور عورت کو یکساں مواقع دستیاب نہ ہوں اور دونوں شانہ بشانہ کام نہ کریں۔

’اکیسویں صدی میں اُردو شاعری‘ کے عنوان سے ہونے والے سیشن کی صدارت افتخار عارف اور امجد اسلام امجد نے کی۔نظامت کے فرائض شکیل جاذب نے انجام دیے۔ مقررین کا خیال تھا کہ اردوشاعری کے سامعین گزرتے وقت کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ نیا میڈیا نئے تقاضے کے مقررین اس بات پہ متفق دکھائی دیے کہ نیا زمانہ نئے میڈیا کا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسے مثبت انداز میں کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کی کتاب ’کہانی بڑے گھر کی‘ پر سہیل وڑائچ اور حامد میر کی گفتگو حاصلِ نشست تھی۔ اکیسویں صدی میں پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے ہونے والے سیشن میں ثروت محی الدین اور صغریٰ صدف ، توقیر چغتائی اور عاصمہ شیرازی نے حصہ لیا۔

کتابوں کے اسٹال پر نوجوان کتابیں دیکھتے ہوئے
کتابوں کے اسٹال پر نوجوان کتابیں دیکھتے ہوئے

اس موقع پر توقیر چغتائی کی کتاب ’دھریکاں نے پھُل‘ کی رونمائی بھی ہوئی۔ اکیسویں صدی میں فنون کی صورتحال پر گفتگو کرنے والوں میں عکسی مفتی، اصغر ندیم سید، شاہد رسام اور بی گل شامل تھے۔ نظامت کے فرائض کیف غزنوی نے انجام دیے۔’کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں‘سخنِ افتخار۔ کلیات افتخار عارف کی رونمائی کی نظامت عنبرین حسیب عنبر نے کی۔ 

اس موقع پر افتخار عارف سے ان کا کلام بھی سنا گیا۔ اردو فکشن کے سیکشن کی نظامت کاشف رضا کے سپرد تھی جبکہ شرکائے گفتگو میں اسد محمد خان، اصغر ندیم سید، فرحت پروین، اختر رضا سلیمی، حمید شاہد، اخلاق احمد اور محمد حفیظ خان شامل تھے۔ایک نشست تقدیسی ادب پر بھی ہوئی جس کی صدارت افتخار عارف اور عالیہ امام نے کی۔

پندرھویں عالمی اُردو کانفرنس میں ایک کے بجائے دو مشاعرے ہوئے۔پہلے مشاعرے کی صدارت پیرزادہ قاسم جبکہ ووسرے مشاعرے کی صدارت افتخار عارف نے کی۔ دونوں مشاعروں میں نامور شاعروں نے اپنا کلام پیش کیا اور حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ کانفرنس کے تمام سیشن یوٹیوب اور فیس بک پر لائیو دکھائے گئے جس سے حاضرین کی تعداد لاکھوں میں چلی گئی۔ 

مشتاق احمد یوسفی کے حوالے سے ہونے والی نشست میں زہرانگاہ اور افتخار عارف نے یوسفی صاحب کی یادیں تازہ کیں اور ان کی شخصیت کے کےا یسے پہلو اجاگر کیے جو ابھی تک ان کے چاہنے والوں سے پوشیدہ تھے۔ ویزے کی پابندیوں کے باعث اس مرتبہ بھارت سے کوئی ادیب اُردو کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکا۔

اختتامی اجلاس اس بار بھی انور مقصود کے نام رہا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتنے غیر ادبی ماحول میں احمد شاہ گزشتہ پندرہ برسوں سے ادبی فضا پیدا کرنے کی سعی کر رہے ہیں لیکن مجھے کہتے ہیں کہ گفتگو پاکستان کے حوالے سے کی جائے حالانہ اکیسویں صدی کے پاکستان کا ادب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 

اس موقع پرقراردادیں بھی پیش کی گئیں، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ اُردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے جبکہ ملک میں بولی جانے والی دیگر تمام زمانوں کو یکساں اہمیت اور اولیت دی جائے۔ انہی قراردادوں کے درمیان مہمان خصوصی گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے یہ شعر سنا کر بہت سوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

ہمارے عہد کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے

ہمیں یہ فکر مستقبل میں اُردو کون بولے گا