(گزشتہ سے پیوستہ)
جسٹس سر شادی لال کے اس محل کی خوبصورتی کبھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اصل میں یہ محل تو رانی جنداں کا تھا لیکن لوگ بھول گئے۔ اب تو لاہوریوں کو جسٹس سرشادی لال کے محل کا بھی پتہ نہیں۔ اسے اب لوگ لڑکیوں کی فنی تعلیم کا کالج کہتے ہیں۔ اس عمارت کا رنگ بھی اب پیلے اور سفید رنگ سے گلابی کردیاگیا ہے۔ اس کے نقش و نگار آج بھی بتاتے ہیں کہ کبھی یہ لاہور کی خوبصورت ترین عمارت تھی۔ یقین کریں اگر آج بھی اس تاریخی عمارت کے فرش پالش کردیئے جائیں تو ایسا لگے کہ یہ فرش ابھی بنائے گئے ہیں۔ سفید اور کالے رنگ کے بلاکوں والا فرش کیا کمال کا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور میں اکثر عمارتوں کا فنِ تعمیر ایسا تھا اور ان میں اس طرح کے فرش بنائے جاتے تھے۔ جسٹس سر شادی لال جس کمرے میں عدالت لگایا کرتے تھے، وہ کمرہ انتہائی دیدہ زیب اور خوبصورت ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم نے اس کے حسن اور خوبصورتی کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پتہ نہیں ہمارا سرکاری محکمہ سی اینڈ ڈبلیو لاہور کی ہر تاریخی اور قدیم عمارت کو گرانے، بوسیدہ کرنے اور خطرناک قرار دینے میں کیوں دلچسپی رکھتا ہے۔یہ تمام پرانی عمارتیں برسوں سے اس شہر بے مثال میں کھڑی ہیں بغیر کسی دیکھ بھال کے تو اگر ان کی دیکھ بھال اور بروقت مرمت کی جائے تو یہ مزید سو دو سو برس تک قائم رہیں گی ۔ مگر یہ تو اب ہر کسی کوپتہ ہے کہ پرانی عمارت کو گرانے اور نئی عمارت کو بنانے میں کتنی دیہاڑی لگتی ہےاور کس کس کو پیسے ملتے ہیں۔ ابھی پتہ نہیں سی اینڈ ڈبلیو کو کتنی تاریخی عمارتوں کو تباہ کرنا ہے۔ خیر اصل بات کی جانب آتے ہیں ، جسٹس سر شادی لال کی عدالت کے فرش پر بڑے خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے ہیں اور ایک سو چودہ برس گزرنے کے باوجود اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس تاریخی کمرے میں جہاں غازی علم الدین شہیدؒ کے کیس کی چند روز سماعت بھی ہوئی تھی کہ اوپر چاروں طرف چلنے پھرنے کے لئے گیلری ہے اور اس کے آگے لوہے کا دیدہ زیب فریم بھی نصب ہے۔ کہتے ہیں کہ کبھی یہاں لکڑی کا فریم لگا ہوتاتھا۔اس گیلری پر جانے کے لئے لکڑی کی دس سیڑھیاں ہیں پھر کوئی چار فٹ کا دروازہ ہے جس میں سے بہت جھک کر گیلری میں جانا پڑتا ہے۔لاہور میں کسی زمانے میں جو مکانات اور سرکاری عمارتیں تعمیر کی جاتی تھیں ان کے فرش لال رنگ کے ہوتے تھے، یہ فرش آج بھی لاہور کے بعض قدیم مکانات اور عمارتوں میں سو برس سے بھی زیادہ قدیم ہیں مگر بہترین حالت میںہیں۔ اب تو تعمیرات کا انداز ہی بدل گیا ہے۔ جسٹس شادی لال کے کمرے کا فرش لال اور ارد گرد خوبصورت پیلا بارڈر نقش و نگار والا ہے۔
غازی علم الدین شہیدؒ کو یہاں دو مختلف کمروںمیں رکھا گیا تھا۔ ایک کمرہ تو کالج والوں نے کچن بنا لیا ہے، دوسرا کمرہ ابھی خالی ہے۔ 2006ء میں حسبِ روایت سی اینڈ ڈبلیو نے اس عمارت کو خطرناک قرار دے کر گرانے کی ناکام کوشش کی اور کالج کو کوٹ لکھپت منتقل کردیا گیا۔ اس وقت اس محل میں تمام تاریخی قیمتی اشیاء اورپرانا خوبصورت فرنیچر تک موجود تھا۔ 2016ء تک یہ عمارت خالی پڑی رہی اور چور مافیا نے اس محل میں لگےہوئے ڈی سی کرنٹ کے انتہائی پائیدار پنکھے، سوئچ، چینی کےنقش و نگار والے سوئچ جو شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں، ہم نے چینی کے نقش و نگار والے سوئچ جس کی بیس پیتل کی ہوتی ہے، دیکھے ہیں، وہ اس عمارت سے چوری کرلئے گئے۔ قارئین کرام کے لئے یہ بات یقیناً دلچسپی کی حامل ہوگی کہ اس عمارت میں ہر کمرے کے اندر اس زمانے میں چینی اور BECKU LATEکے کالے رنگ کے کورفیوز لگے ہوئے تھے، چینی والے فیوز آج بھی ہمیں کچھ کمروں میں دکھائی دیے۔ کاش حکومت اس تاریخی محل کو محفوظ کرکے ایک تاریخی ورثہ قرار دے کر سیر گاہ یا جس طرح بھارت میںبعض تاریخی قلعوں اور محلات میں ہوٹل اور ریسٹورنٹس بنا دیئے گئے ہیں وہ بنا دے تاکہ یہ عمارت سیاحوں کیلئے ایک دلچسپ سیر گاہ بن جائے۔ یہاں تو سرکاری محکمے ہر تاریخی عمارت کے دشمن ہیں اور ہر قدیم عمارت کوگرانا چاہتے ہیں۔ اے اللہ کے نیک بندو! دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک اور ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی کئی قدیم عمارتوں کو تاریخی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر چکا ہے، سیاح ان عمارتوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جسٹس سر شادی لال کے اس خوبصورت محل کے اوپر جانے کیلئے دو راستے ہیں ایک گنبد کے ذریعے اور دوسرا مرکزی عمارت میں سے ہوکر جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جب ایک گنبد کی سیڑھیوں کے ذریعے اوپر کی منزل پر گئے تو دوسرے گنبد کے ذریعے نیچے آنے کے لئے جب دروازہ کھولا تو اندر سیڑھیاں ہی نہیں تھیں جو انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ کالج کے وائس پرنسپل خرم مراد کے بقول دوسرے گنبد کی سیڑھیاں گر چکی ہیں جب کہ اس کالج کی ایک اور استاد سعدیہ نازش کے بقول دوسرے گنبد میں سیڑھیاں نہیں تھیں۔ ہمارا دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ رانی جنداں نے دونوں گنبدوں میں سیڑھیاں تعمیر نہیں کرائی ہوں گی۔ یقیناً دوسرے گنبد یا مینار میں سیڑھیاں ہوںگی، جو گر گئی ہوں گی۔ فن تعمیر کے اس نادر نمونہ کے کارپورچ کی چھت پر دوبرجیاں بھی ہیں جس سے یہ کار پورچ بہت خوبصورت لگتا ہے۔ لاہور میں انگریزوں اور ہندوئوں کی تعمیر کردہ عمارات میں سے اب صرف دو چار ایسی رہ گئی ہیں جن کی چھتیں لکڑی کے بالوں اور بڑے بڑے شہتیروں والی ہیں۔ اس محل میں بھی اب دو چار کمرے رہ گئے ہیں جن کی چھتیں لکڑی کے بالوں اور شہتیروں کی ہیں۔ اگر اس تاریخی قدیم محل کو بچایا نہ گیا تو یقیناً وہ قبضہ مافیا جن کا ہم ذکر نہیں کرسکتے وہ اس عمارت پر قبضہ کرلے گا۔ (جاری ہے)