• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب ترامیم اُس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ترامیم اس اسمبلی نےکیں جو مکمل ہی نہیں، اس نکتے پر کوئی قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔

نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے، چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لائن فالو کرنے سے فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے، نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پیر باندھ کر تماشا دیکھے؟

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے کچھ اور جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔

عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہو سکی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہو سکی، مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے، سسٹم میں موجود خامیاں کبھی دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کے لیے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے، صوبے میں 5 ماہ بعد آئی جی اور 3 ماہ بعد ایس ایچ او بدل جاتا ہے، ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ریکوڈک اور اسٹیل مل کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے، حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی، نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کرپشن غلط ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن ہونی نہیں چاہیے، سوال یہ ہے کرپشن کا سدباب کسے اور کیسے کرنا ہے؟

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کرپشن ختم کرنا ایگزیکٹو کا کام ہے، اگر ایگزیکٹو اپنا کام نہیں کر سکی تو عدالت مداخلت کرتی ہے، عدالت نے ہمیشہ عوامی عہدوں پر کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور سچ سامنے لاتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں بہت سے معاملات میں بہتری بھی آئی ہے، خوش آئندیہ بھی ہے پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور سچ سامنے لاتا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پاکستانی میڈیا ورلڈ رینکنگ میں 180 میں سے 157 نمبر پر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان اسی نمبر پر ہے جو نیب ترامیم سے پہلے تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد جو رینکنگ جاری ہو گی اس میں پاکستان یقیناً 100 نمبر نیچے جا چکا ہو گا، جب سسٹم تباہ ہو رہا ہو تو عدلیہ مداخلت کرتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ خود کو فائدہ پہنچانے کی قانون سازی کے لیے ’ریگولیٹری کیپچر‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

کیا پھر ہم حالیہ نیب ترامیم کو ’پارلیمنٹری کیپچر‘ کہیں گے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا پھر ہم حالیہ نیب ترامیم کو ’پارلیمنٹری کیپچر‘ کہیں گے؟

عمران خان کے وکیل نے چیف جسٹس کو جواب دیتے ہوئے کہاکہ پارلیمنٹری کیپچر کسی اور  معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کا اطلاق افواج پاکستان پر نہیں ہوتا، فورسز کے ان افسران پر نیب قانون لاگو ہوتا ہے جو کسی سول ادارے میں تعینات ہوں، نیب قانون کا اطلاق عدلیہ پر بھی نہیں ہوتا۔

ججز کو نوکری سے ہی نکالا جا سکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججز کو نوکری سے ہی نکالا جا سکتا ہے، ان سے ریکوری نہیں ہو سکتی۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ڈسپلن پر افواج کے خلاف آئینی درخواست نہیں ہو سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کے خلاف آئینی درخواست تعیناتی یا تبادلے کے معاملے میں نہیں ہو سکتی، فیصلے میں انفرادی کرپشن پر کسی فوجی افسر کو چھوڑنے کا کہیں ذکر نہیں، سپریم کورٹ نے فیصلہ 2001 میں دیا تھا تب حکومت کس کی تھی؟

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ حکومت جس کی بھی تھی فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی دیا تھا۔

فوج کو استثنیٰ دینا سمجھ سے بالاتر ہے، جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 25 مساوات کی بات کرتا ہے، کسی کے ساتھ جانبداری نہیں ہونی چاہیے، فوج کو استثنیٰ دینا سمجھ سے بالاتر ہے، فوج کے خلاف بات نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کرپشن پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایڈمرل منصور کو پاکستان لا کر نیب نے کارروائی کی تھی، ماضی میں کئی فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی مثال موجود ہے۔

آرمی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدہ لیں تب بھی سوال نہیں ہو سکتا،  جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق آرمی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدہ لیں تب بھی سوال نہیں ہو سکتا، عدالت کو اس سوال پر اپنے دلائل دیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث عدالتی سوالات کے جواب دیں گے۔

قومی خبریں سے مزید