• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فوٹو: جیو
فوٹو: جیو

پاکستان نے دنیا کرکٹ کو کئی نامور بیٹرز دیے، کسی کو اس کے ٹیلنٹ کے حساب سے پذیرائی ملی کوئی اچھے اعداد و شمار کے باوجود بھی وہ مقام حاصل نہ کرسکا جو شائد اسکا حق تھا، ایسے ہی ایک کھلاڑی اظہر علی ہیں جنہوں نے پیر کو کراچی میں اپنے کیریئر کی آخری اننگز کھیلی۔

37 سالہ اظہر علی نے 2010 میں اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کیا، 97 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 7 ہزار 142 رنز بنائے۔

کراچی ٹیسٹ میں کیریئر کی آخری اننگز کے بعد جنگ کو خصوصی انٹرویو میں اظہر علی نے اپنے کیریئر کے نشیب و فراز، چیلنجز، یادگار لمحات، تلخ یادوں اور دیگر معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ 12 سالہ کیریئر میں کوئی تشنگی رہی ہے تو انہوں نے کہا ’خواہش تھی کہ 100 ٹیسٹ میچز کھیلوں مگر وہ اس سیریز میں پوری نہیں ہو پارہی تھی، لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہاں البتہ ایک دکھ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کیخلاف جو ابوظبی میں ٹیسٹ تھا وہ فنش نہ کرسکا تھا، سوچتا ہوں کاش نکل کر چھکا مار دیتا لیکن اس وقت ایسا نہیں سوچا، کاش وہ فنش کرلیتا تو اچھا ہوتا مگر پاکستان قریب آر وہ میچ ہار گیا‘۔

اظہر علی نے کہا کہ ’کرکٹ میں اپ اور ڈاؤن چلتے ہیں چیلنج آتے ہیں، کیریئر میں اچھی کارکردگی بھی ہیں اور مایوس کن لمحات بھی ہیں، یہ کیریئر کا حصہ ہے، ہمیشہ ویسا نہیں ہوتا جیسا آپ چاہتے ہیں، زندگی ایسے ہی چلتی ہے۔‘

اظہر علی نے بتایا کہ ’ایک لیگ اسپنر کے طور پر شروعات کی، پھر آہستہ آہستہ بیٹنگ کی طرف آئے، آج اگر ان لمحات میں دوبارہ جاؤں تو میں اس کیریئر سے ہمیشہ مطمئن رہوں گا، اچھی یادوں میں چیمپئنز ٹرافی جیتنا، ٹیسٹ نمبر ون ٹیم بننا شامل ہے۔‘

سابق کپتان نے کہا کہ 2006 کے سیزن میں بطور بیٹر کھیلا، کے آر ایل میں محمد وسیم نے بطور بیٹر کھلایا، علی نقوی بھی اس سے کافی متاثر ہوئے، وہاں سے جو موقع ملا تو اعتماد ملا کہ بطور بیٹسمین کھیل سکتا ہوں، پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے تسلیم کیا مگر دو تین سال لگے جس کے بعد لوگوں کو یقین آیا کہ میں بیٹنگ کرسکتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ’پورے کیریئر میں مشکلات رہیں کہ ہمیشہ خود کو منوانا پڑتا رہا، لیکن اس نے مجھے اور بھی محنت کرنا سکھایا، اب 97 ٹیسٹ کھیلنا میری نظر میں بڑا کارنامہ ہے۔‘

اظہر علی نے ایک ایسے وقت میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا جب پاکستان کرکٹ تنازعات میں الجھی ہوئی تھی، وہ کہتے ہیں کہ کیریئر کے شروعات کے تین سال بہت چیلنجنگ تھا، پاکستان ٹیم کو وہ آزادی نہیں میسر تھی جو دیگر ٹیموں کو تھی لیکن ٹیم کا ایک ہدف تھا اور وہ تھا فینز کا اعتماد ایک بار پھر جیتنا، دو تین سال ٹیم نے متحد ہو کر بہت کامیابیاں حاصل کیں۔

ایک سوال کے جواب میں کیریئر کے ابتدائی 72 ٹیسٹ ملک سے باہر کھیلنے والے اظہر علی نے کہا کہ ’میں یا میرے ساتھ کے کھلاڑی ہم نے شائد سوچا نہ تھا کہ اب پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیل پائیں گے مگر سیکیورٹی ایجنسیوں نے بڑا کام کیا اور پھر ان ٹیموں کے شکرگزار جو شروع میں آئے، اب رونقیں بحال ہوئیں، خوش قسمتی ہے کہ ہمیں پاکستان میں کھیلنے کا موقع ملا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی نظر میں ان کی سب سے بہترین اننگز کون سی ہے تو اظہر علی نے جواب دیا کہ ’میرے خیال میں 300 کرنا، آسٹریلیا میں 200 کرنا بڑی کارکردگی ضرور ہے لیکن ایک پلیئر کو پتہ ہوتا کہ وہ اندر سے کس وقت کس صورتحال کا شکار ہے اس لیے میری نظر میں انگلینڈ میں ساؤتھپٹن میں جو سنچری کی تھی وہ بہت اہم ہے کیونکہ اس ٹائم پر میں کافی اسٹرگل کر رہا تھا اس لیے میرے لیے وہ اننگ کافی اہم رہی۔‘

ایک سوال پر اظہر علی کا کہنا تھا کہ یونس خان، مصباح الحق نے ان کے کیریئر میں کافی کردار ادا کیا، انہوں نے دوست ہی ایسے بنائے جو انہیں گائیڈ کریں، کوشش ہوتی تھی کہ اپنے آس پاس ایسے لوگ رکھیں جو ہر وقت تعریف کے بجائے غلطیوں کی نشاندہی کریں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں وہ پذیرائی نہ ملی جو ان کے اعداد و شمار کے مطابق ان کا حق تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ خود سے کیا کر سکتے ہیں لیکن یہ ایک چیلنج سا ضرور تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم جیسے باہر کے کھلاڑی اگر ایسے ہی آؤٹ آف فارم ہوتے تو ان کو وہ تنقید نہیں سہنا پڑتی جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑتا تھا۔‘

سابق کپتان نے تسلیم کیا کہ جب وہ ون ڈے کرکٹ سے آؤٹ ہوئے تو اس وقت انہیں لگتا تھا کہ ان کی وائٹ بال کرکٹ ابھی باقی ہے لیکن چونکہ ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی تھی تو اس لیے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اس بات کا کوئی شکوہ نہیں۔

اظہر علی نے کراچی ٹیسٹ کے آغاز سے قبل اعلان کردیا تھا کہ یہ ان کا آخری ٹیسٹ ہوگا، پہلی اننگز میں 45 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد دوسری اننگز میں، جو ان کی آخری اننگز بھی تھی، صفر پر آؤٹ ہوگئے۔

اظہر علی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آخری اننگز کو یادگار بنانا چاہتے تھے، دکھ ہے کہ ایسا ہو نہ سکا لیکن یہ کرکٹ کا حصہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب آؤٹ ہو کر واپس آرہا تھا تو کافی جذباتی تھا، 12 سال میدان میں رہا اس میدان سے باہر نکلتے وقت جذباتی تھا۔ جس انداز میں مجھے الوداع کہا گیا اس پر ساتھی کرکٹرز اور پی سی بی کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔‘

اظہر علی نے کہا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ سے جڑے رہیں گے کیوں کہ کرکٹ ہی آتی ہے، فی الحال وہ کاؤنٹی کھیلنے جارہے ہیں جس کے بعد سوچیں گے کہ کمینٹری یا کوچنگ میں سے کس جانب اپنا کیریئر اپنانا ہے۔

کھیلوں کی خبریں سے مزید