برّ صغیر پاک و ہند کی انتہائی قد آور شخصیت و سر سید ثانی تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سید سلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے بابائے قوم کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ونسٹن چرچل ، مہاتما گاندھی، اور جواہر لال نہرو، قائد اعظم ان سب سے عظیم ہیں ،ان میں کوئی بھی کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے قائد اعظم محمد علی جناح کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے اسی بات کو دوسرے انداز میں کہا تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما تھے۔ بلا شبہ بانیٔ پاکستان ایک عہد آفرین شخصیت ، عظیم قانون دان، بااصول سیاست دان اور بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل ، غیر متزلزل عزم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔
انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانش وارانہ صلاحیتوں ، فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب کی مسلسل اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق اتار ااور پاکستان جیسی مملکت اسلامی کی بنیاد رکھی۔
آج بانیٔ پاکستان کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر قدرت اللہ شہاب کی قائد اعظم سے ملاقات کا احوال نذر قارئین ہے۔
………٭٭……٭٭………
ریاست جموں و کشمیر میں جب شیخ محمد عبداللہ نے مسلم کانفرنس سے ناتا توڑ کر نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی تو مسلمانان ریاست کے لیے یہ بڑی تشویش اور آزمائش کا لمحہ تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے تمام وسائل، مہاتما گاندھی کی ساری مقناطیسی کشش اور پنڈت جواہر لال نہرو کی سیاسی مہارت شیخ صاحب کے ایک اشارے پر ہر خدمت اور امداد کے لیے حاضر تھی۔ اُس وقت جبکہ چوہدری غلام عباس مسلم کانفرنس کے بکھرے ہوئے شیرازے کو از سر نومنظم کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھے تو ان کی ہمت بڑھانے اور ان کی دشوار گزار منزل کو اپنی رہنمائی کی مشعل سے روشن کرنے قائد اعظم بھی بنفس نفیس جموں تشریف لائے تھے، وہاں ان کا پرجوش استقبال ہوا۔
جب جلوس ریزیڈنسی روڈ سے گزر رہا تھا تو مجھے دور سے قائد اعظم محمد علی جناح کی پہلی جھلک نظر آئی۔ ایک کھلی چھت کی موٹر کار میں قائد اعظم اور چوہدری غلام عباس شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں رضا کاروں اور جاں نثاروں کے پہرے لگے ہوئے تھے اور چاروں طرف دُور دُور تک مسلم کانفرنس کے نام لیوائوں کا ہجوم ہی ہجوم تھا۔ ’’اللہ اکبر‘‘ اور ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے فضا میں گونج رہے تھے۔
قائد اعظم مسکرا مسکرا کر دایاں ہاتھ پیشانی تک اٹھا کر لوگوں کو سلام کا جواب دے رہے تھے۔ کبھی جوش و خروش جب حد سے زیادہ بڑھ جاتا تھا تو قائد اعظم اپنا بازو چوہدری صاحب کے بازو میں ڈال کر سر کی ہلکی سی جنبش سے ان کی طرف اشارہ کرتے تھے، گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں’’یہ چوہدری غلام عباس ہیں۔ مجھے ان پر اتنا ہی اعتماد ہے، جتنا کہ آپ کو بھی ہے۔ ‘‘
قائد اعظم کے سر کی جنبش دیکھ کر سارے کا سارا مجمع اور بھی جوش میں آجاتا اور آس پاس کی فضا ’’قائد اعظم زندہ باد، چوہدری غلام عباس زندہ باد‘‘ کے بلند نعروں سے گونجنے لگتی تھی۔ عوام الناس کی عقیدت اور قائد اعظم کی خوشنودی کے اس مظاہرے پر چوہدری صاحب دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر عجزو انکساری سے سر جھکا لیتے تھے۔ جموں کی سڑکوں نے یہ جاں پرور نظارہ کئی گھنٹے تک دیکھا۔
قائد اعظم کے اس دور کے جلوس کے بعد مجھے ان کی دوسری زیارت نئی دہلی میں نصیب ہوئی۔ 1946کے وسط میں جب یہ ظاہر ہوگیا کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے اور پاکستان کا قیام بھی اٹل ہے تو کانگریس ہائی کمان نے ہندو اکثریت کے رویوں کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنانے شروع کردیئے۔ اس زمانے میں میری پوسٹنگ اڑیسہ کے دارالحکومت کٹک میں تھی اور میں وہاں ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکریٹری کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ صوبہ اڑیسہ میں کانگریس کی وزارت برسر اقتدار تھی اور شری ہرے کرشن مہتاب وزیر اعلیٰ تھے۔
مہتاب صاحب بڑے نیک دل، بے تعصب اور منصف مزاج انسان تھے، جس وقت سارا ہندوستان ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا، اڑیسہ ان چند خوش قسمت علاقوں میں سے تھا، جو ان ہولناک آگ کے شعلوں سے کافی حد تک محفوظ تھا۔ اس کی بڑی وجہ مسٹر ہرے کرشن مہتاب کی بے تعصبی تھی۔ اس زمانے میں اڑیسہ کا چیف سیکریٹری آئی۔سی۔ایس۔ کا ایک انگریز افسر مسٹر کیمپ تھا۔ یہ صاحب عجیب ذات شریف تھے ۔ اپنی آنکھوں سے صاف دیکھ رہے تھے کہ ہندوستان پر انگریزی سلطنت کا آفتاب غروب ہو رہا ہے، لیکن ان کا دل اس حقیقت کو قبول کرنے سے سراسر انکار ہی انکار کررہا تھا، گومگو کے اس عالم میں ان کا ذہن پریشانی اور ان کے دفتری کام انتشار میں بری طرح مبتلا رہتے تھے۔
مہتاب صاحب اگر چاہتے تو چشم زدن میں مسٹر کیمپ کی جگہ کسی اور اچھے افسر کو چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز کرسکتے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ آئی ۔سی۔ایس۔ کے انگریز افسر اب محض چراغ سحری ہیں، اس لیے وہ از راہ مروت طَرْح دیتے گئے اور مسٹر کیمپ بدستور ان کے چیف سیکریٹری رہے، البتہ شری ہرے کرشن مہتاب نے چپکے سے مجھے ہدایت دی کہ چیف سیکریٹری کو آرام سے اپنے دن پورے کرنے دوں اور ان کا ضروری اور اہم کام حکمتِ عملی سے میں خود دیکھتا رہوں، خاص خاص کاغذات اور فائلیں میں ہی ان کے پاس لے کر آیاکروں۔
مجھے ڈر تھا کہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری کے براہِ راست رابطے کا شاید چیف سیکریٹری صاحب برا منائیں، لیکن عضو معطل بن کر الگ تھلگ پڑے رہنا، غالباً مسٹر کیمپ کو بھی راس آیا۔ ایک روز عجیب ہی میٹھی میٹھی تلخی کے ساتھ انہوں نے مجھ سے کہا۔
’’مجھے تبخیر معدہ کی شکایت تھی۔ اب بہت افاقہ ہے۔‘‘
’’مبارک ہو!‘‘میں نے رسماً کہا۔
’’کس کا علاج ہے؟‘‘ مسٹر کیمپ نے بیساختہ جواب دیا۔
’’تمہارا ۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’وہ کیسے!‘‘ مسٹر کیمپ بولے۔
’’تمہاری حرکت سے اب ہر روز کانگریسی وزیر اعلیٰ کی صورت نہیں دیکھنی پڑتی۔‘‘
ان دنوں تقریباً ہر ماہ کسی نہ کسی جگہ کانگریس ہائی کمان کے خفیہ اجلاس ہوا کرتے تھے ۔ شری کرشن مہتاب کا قاعدہ تھاکہ وہ جب دوروں سے واپس آتے تو کاغذات کی ایک کالے رنگ کی آہنی صندوقچی، جو اکثر ان کے ساتھ رہا کرتی تھی، مع چابی میرے حوالے کردیتے اور کہتے۔
’’سرکاری اور سیاسی کاغذات کو چھانٹ کر الگ الگ کرلینا، سرکاری کاغذ دفتر میں لے جانا، سیاسی کاغذ پانڈے جی کے حوالے کردینا۔ ‘‘ شری دیس راج پانڈے ایک فربہ اندام، لیکن نحیف الدماغ کٹر ہندو کانگریسی تھے، جو مہتاب صاحب کے پولیٹیکل سیکریٹری کہلاتے تھے۔ ان کی تنخواہ، جو صوبائی کانگریس کمیٹی سے ملا کرتی تھی۔ بہت قلیل تھی، اس لیے وہ اکثر دھمکی آمیز لہجے میں مجھے طعنہ دیا کرتے تھے۔
’’شہاب جی! ذرا آزادی کا دن آنے دو، کایا پلٹ جائے گی۔ دیس راج پانڈے کی تنخواہ ٓئی۔سی۔ایس۔ کی تنخواہ سے روپے سوا روپے زیادہ نہ ہوئی تو گنگا میں ڈوب مروں گا۔‘‘ جب میں مہتاب صاحب کی صندوقچی چھان پھٹک کر ان کے سیاسی کاغذات الگ کرلیتا اور انہیں پانڈے جی کے حوالے کرنے جاتا تو وہ بے اختیار چھی چھی چھی کی گردان کرتے اور اپنا ہاتھ دو تین بار ماتھے پر مار کر کہتے۔
’’شہاب جی! ذرا سوچو تو۔ مہتاب جی کی تو عقل ماری گئی ہے۔ کانگریس کے سارے خفیہ کاغذات آپ کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔ آپ آدمی تواچھے ہیں، لیکن مسلمان ہیں، اس لیے پاکستانی ہیں۔‘‘ پانڈے جی کو جب بھی موقع ملتا، وہ کرید کرید کر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کہیں میں مہتاب صاحب کے سیاسی کاغذات تو نہیں پڑھا کرتا۔ میں ہر بار انہیں ٹال دیا کرتا۔ ایک بار جب انہوں نے کوئی خاطر خواہ جواب لینے کے لیے بہت ہی اصرار کیا تو میں نے کہا۔
’’پانڈے جی! ایسی باتیں پوچھا نہیں کرتے۔‘‘
’’کیوں نہ پوچھیں؟‘‘ پانڈے جی نے زور دیا۔
’’اس لیے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں یہ کاغذات نہیں پڑھتا تو آپ کو یقین نہیں آئے گا اور اگر کہوں کہ پڑھتا ہوں تو آپ شور مچائیں گے ا ور شکایتیں لگائیں گے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ میں مہتاب صاحب کے تمام سیاسی کاغذات نہایت ذوق و شوق اور غور سے پڑھتا اور کسی کسی اہم دستاویز کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیا کرتا تھا۔ ایک بار جب وزیر اعلیٰ کانگریس کی ہائی کمان کی میٹنگ میں شرکت کر کے کٹک واپس آئے تو ان کی صندوقچی سے ایک لفافہ برآمد ہوا جس پر کئی جگہ ’’بے حد خفیہ (Top Secret)‘‘ صرف مکتوب الیہ اپنے ہاتھ سے کھولے‘‘ کی بڑی بڑی مہریں ثبت تھیں۔ اندر ایک نو دس صفحات کا خط تھا، جس میں کانگریس ہائی کمان نے اپنے صوبائی وزرائے اعلیٰ کے نام نہایت مفصل ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہے۔
ہندو اکثریت کے صوبوں میں کانگریس وزارتوں کو فوراً ہی حفاظتی اور دفاعی تدابیر پر عمل شروع کردینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے مسلمان افسروں کو کلیدی عہدوں سے تبدیل کر دیں۔ پولیس کے مسلمان عملے کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں تھانوں سے ہٹا کر پولیس لائن میں رکھیں، جہاں تک ہوسکے ان لوگوں کو غیر مسلح رہنے دیں، جن صوبوں میں ایسی ملٹری پولیس موجود ہے،جن کے گھوڑ سوار مشرقی سرحدی صوبے سے بھرتی کیے گئے ہیں، ان کے رسالوں کو جلد از جلد توڑ دیا جائے۔ آئندہ سے اس قسم کے دستوں میں صرف ہندو سپاہی بھرتی کیے جائیں۔
بڑے بڑے مسلمان زمینداروں، تاجروں اور صنعتکاروں کے مال و املاک کی اصلی دستاویزات کو محکمہ مال اور دوسرے محکموں کی تحویل میں مقفل رکھا جائے۔ آئندہ ہدایات جاری ہونے تک ایسی دستاویزات کی نقول دینے میں جلدی نہ کی جائےوغیرہ وغیرہ۔ کانگریس ہائی کمان کے اس خفیہ مراسلے کو پڑھ کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ پاکستان تو مسلمان اکثریت کے صوبوں میں بنے گا، پھر ہندو اکثریت کے صوبوں میں کس طرح حفاظتی اور دفاعی تدابیروں کی ضرورت ہے، جن پر عمل کرنے کے لیے پولیس کے مسلمان عملے کو غیر مسلح کرکے لائن حاضر کرنا، اس قدر ضروری ہوگیا؟ مسلمانوں کی زمینداریوں، فیکٹریوں اور تجارتی فرموں کی اصل دستاویزات کو دفتروں میں دباکر رکھنا چہ منعی دارد؟
جب اس قسم کے سوالوں نے ابھر ابھر کر مجھے پریشان کیا تو ایک روز میں نے دس دن کی چھٹی منظور کروائی، بہت سی کانگریسی دستاویزوں کی نقول کو سمیٹا ،جو پہلے سے میرے پاس جمع تھیں۔ تازہ ترین خفیہ خط کا اصل مراسلہ جیب میں ڈالا اور اللہ کا نام لے کر دہلی روانہ ہوگیا۔
نئی دہلی پہنچ کر قائد اعظم کی جائے قیام گیا، معلوم ہوا کہ قائد بے حد مصروف ہیں۔ مسلم لیگ کے کئی مشہور لیڈر کئی دنوں سے آئے بیٹھے ہیں، لیکن انٹرویو کی باری تک نہیں آئی۔ دو تین روز کی تگ و دو کے بعد مجھے رسائی حاصل ہوئی۔ ہدایت ملی کہ پندرہ منٹ سے زیادہ اندر ٹھہرنے کی کوشش نہ کروں۔
کمرے میں قائد اعظم برائون رنگ کا دیدہ زیب سوٹ پہنے اور ایک شیشے والی عینک لگائے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں میز کے سامنے جاکر کھڑا ہوا۔ سلام کیا تو عینک اتار کر میری طرف دیکھا اور انگریزی میں کہا۔
’’ویل ! جو کہنا ہے، جلدی کہو۔‘‘ میں نے کچھ کہے بغیر کاغذوں کی فائل ان کے سامنے رکھ دی۔ شروع میں کچھ نقلیں تھیں۔ قائد اعظم نے کسی قدر بیزاری سے سرسری طورپر انہیں دیکھا اور جلد جلد ورق الٹتے گئے۔ جب کانگریس کے ہائی کمان کے خفیہ ترین مراسلے کی اصل دستاویز آئی تو ٹھٹھک گئے اور میری طرف گھور کر دیکھا اور کہا۔’’بیٹھو۔‘‘
میں شکریہ ادا کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔ قائد اعظم غور سے مراسلہ پڑھنے لگے۔ ایک دفعہ پورا پڑھنے کے بعد اس کے چند حصوں کو دوبارہ دیکھا اور فرمایا۔
’’یہ دستاویز کیسے ملی؟‘‘ میں نے مختصر طورپر سارا واقعہ سنایا۔
’’کیا میں اس خط کی ایک نقل بنوا کر رکھ سکتا ہوں؟‘‘ قائد اعظم نے پوچھا۔
’’جناب! نقل کیسی؟‘‘ میں نے عرض کیا۔
’’میں یہ اصل دستاویز آپ ہی کے لیے لایا ہوں۔ قبول فرمائیں۔
’’تھینک یو!‘‘ قائد اعظم نے فرمایا۔
’’تم بیشک جائو۔‘‘ میں سلام کرکے کمرے کے دروازے تک واپس پہنچا تو قائد اعظم نے پیچھے سے آواز دے کر مجھے روک لیا اور کہا۔
’’کیا تم جانتے ہو، یہ حرکت کرکے تم نے کس قسم کا خطرہ مول لیا ہے؟‘‘
’’جی جناب اور بالکل بقائمی ہوش و حواس !‘‘ میں نے قانونی اصطلاح استعمال کی۔ قائد اعظم مسکرائے۔
’’ویل بوائے! دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنا۔