• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ڈائری لکھتے ہوئے سول سروس اکیڈمی میں ایک مہمان مقرر، جو ایک ریٹائرڈ آئی سی ایس تھا، کی شدت سے یاد آرہی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ انگریز دور میں ڈپٹی کمشنر کے اتنے وسیع اختیارات تھے جنہیں صرف پڑھنے کیلئے پورا دن درکار ہوتاتھا۔ میرا خیال ہے اگرچہ ریٹائرڈ افسر نے فرطِ جذبات میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی کردی ہوگی مگر میں سمجھتا ہوں کہ ڈپٹی کمشنر کے اختیارات پڑھنے کیلئے پورا دن نہیں تو چند گھنٹے ضرور لگتے ہوں گے۔ اچھا ہوا مغلیہ سلطنت اپنے انجام کو پہنچ چکی وگرنہ مغل شہزادے بادشاہ بننے کی بجائے ڈپٹی کمشنر بننا زیادہ پسند کرتے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج ڈسٹرکٹ جج ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو دفتر میٹنگ کیلئے طلب کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر تو دور کی بات ماضی میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کو سنبھالنا مشکل ہوتا تھا۔وہ اسسٹنٹ کمشنر نہیں، مجسٹریٹ درجہ اوّل دفعہ تیس بھی ہوتا تھا مگر مجسٹریٹ درجہ اوّل تو ایک طرف اب اسسٹنٹ کمشنر صبح صبح سبزی منڈی میں درجہ اوّل اور درجہ دوم کے پیاز اور ٹماٹر کےنرخ چیک کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ پرویز مشرف نے تو حد ہی کر دی تھی۔ اچھے بھلے ڈی سی کو ڈی سی او بنا دیاتھا۔ کہاگیا ڈی سی او کے اختیارات بڑھا دئیے گئے ہیں ۔ایسے اختیارات کااچار ڈالنا ہے جب عہدے کا نام ہی ڈھنگ کا نہ ہو۔ ایک دہائی کی جدوجہد کے بعد اس ’ـاو‘ کی منحوس دُم سے جان چھوٹی اور ڈی سی او دوبارہ ڈی سی بننے میں کامیاب ہوا۔

خیالات کا سلسلہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا! آج دن کا آغاز قدرے جلدی کیا اور ٹھیک گیارہ بجے دفتر پہنچ گیا۔ کاموں کی ایک لمبی لسٹ منتظر تھی۔ بیٹے کاا سکول میں داخلے کا مسئلہ ، کلب کی ممبر شپ کیلئے فارم بھرنا اور پتہ نہیں کیا کیاکام مگر کافی کا کپ ابھی ختم نہیں کیا تھا کہ دو تین ممبرانِ اسمبلی دفتر پہنچ گئے۔ احساسِ ذمہ داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اپنے کام بھول کر ممبران اسمبلی کے کاموں میں لگ گیا، پھر گپ شپ کا دور شروع ہوا۔ مہمان کا احترام گھٹی میں ملا ہے اس لئے مہمانوں کیلئے دوپہر کے کھانے کا پروگرام ریٹائرنگ روم میں کیا۔ معزز ممبران اسمبلی ابھی رخصت ہی ہوئے تھے کہ بڑے صاحب کی اچانک وڈیو لنک میٹنگ کا پیغام آگیا۔ فوراً دفتر سے میٹنگ روم میں آگیا۔ وڈیو لنک میٹنگ کے دوران ہی کچھ ضروری فائلیں نمٹائیں۔

میٹنگ سے فارغ ہو کر ناظر کو رات کے مشاعرہ کے پروگرام کے اچھے انتظامات کیلئے تاکید کی۔ ایک زمانہ تھا جب ڈپٹی کمشنر شعراء اور ادیبوں کی سر پرستی اور مشاعروں کا اہتمام کیاکرتے تھے۔ ابتدامیں ناظر نے مخالفت کی کہ’’ ایسے ہی آٹھ دس لاکھ روپے کا غیر ضروری خرچ ہے۔‘‘ اُسے کیامعلوم مغل بادشاہ بھی تو اپنے درباروں میں ایسے پروگرام منعقد کرتے تھے۔ مشاعرےسے یاد آیا پچھلے دنوں ضلع کے ایس پی نے بھی ایک کل پاکستان مشاعرہ کروایا۔ اب ــ ’’ پُلسیوں‘‘ کے کام دیکھیں ، ضمنیاں لکھنے والے لوگ بھی مشاعرے کروا رہے ہیں۔ سچ کہتے ہیں کہ دریائوں پر برا وقت آیا تھا تو ہر کُبڑا تیراک بن گیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کا ادارہ کمزور کیا ہوا کہ یہ لوگ بھی اب پرزے نکالنے لگے ہیں۔ دفتر کی مصروفیات سے بڑی مشکل سے جان چھڑا کر تین بجے گھر روانہ ہوا۔ دفتر کے کوریڈورز میں بیٹھے ہوئے درخواست گزار ہاتھوں میں درخواستیں تھامے لپک لپک کر منہ تک آرہے تھے۔ کسی کو تمیز نام کی چیز چھو کر بھی نہیں گزری ۔ اپنی نہیں تو کم از کم ڈپٹی کمشنر کی عزت کا خیال کر لیں۔ ایک زمانہ تھا جب بڑے بڑے نواب گھنٹوں صاحب بہادر کا انتظار کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اُسے دور سے دیکھنا بھی سعادت سمجھتے تھے ۔ دفتر میں خال خال ہی کسی کو کرسی پیش کی جاتی تھی۔ آج منشے ، بوٹے قسم کے لوگ لپک لپک کر پڑ رہے ہیں ۔ دفتر کے اندر بلائیں تو کرسی پر ایسے بیٹھتے ہیں جیسے ابھی ’ پھُٹی ‘ کا ٹرک بیچ کر آرہے ہوں۔ درخواست باز قسم کے لوگ عرضی نویس سے درخواست لکھوا کر ڈی سی کے دفتر میں حاضری لگوانے پہنچ جاتے ہیں۔ گھر جا کر قیلولہ کیا۔ شام کو کھلی کچہری کیلئے ایک تحصیل ہیڈکوارٹر گیا۔ ادھر بھی درخواست باز لوگوں کا جم غفیر۔ کوئی چیخ رہا تھا کہ میری اتنی کنالیں اور کوئی رو رہا میرے اتنے مرلے۔ نہ بات کرنے کا ڈھنگ اور نہ عرض کرنے کا سلیقہ ۔ بات ایسے کر رہے تھے جیسے ڈپٹی کمشنر بغل میں جریب لے کر پھر رہا ہو ۔کھلی کچہری جب تھوڑا زیادہ کھلی ہونے لگی تو میں نے بھی اسسٹنٹ کمشنر اور متعلقہ تحصیل دار کو ضروری ہدایات دے کر وہاں سے رخصت ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ آج بیٹے کی سالگرہ کے سلسلہ میں رات کو گھر میں ایک دعوت کا اہتمام بھی تھا۔ ضلع ناظر نے مشورہ دیا کہ دعوت کا اہتمام شہر کے بڑے ہوٹل میں کرنا چاہئے مگر میرا وہاں پچھلی دفعہ کے ڈنر کا تجربہ اچھا نہیں رہا تھا۔ نہ استقبال کیلئے وہاں کوئی موجود اور نہ ہی پروٹوکول کا کوئی انتظام اور پھر ٹیبل ایسی جگہ لگائی جہاں چاروں طرف عام گاہکوں کا رش اور شور ہی شور۔ ڈپٹی کمشنر کو ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔ خیر میں نے بھی ڈینگی اسپرے کے بہانے ہوٹل سیل کر کے مالک سے ناکوں لکیریں نکلوائی تھیں۔ دعوت کا پروگرام بہت شاندار رہا۔ دو ڈپٹی کمشنر ز اور چند بیچ میٹس کو مع فیملی مدعو کیا ہوا تھا۔ ضلع ناظر نے انتظامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ گھر کے لان کو برقی قمقموں سے سجایا ہوا تھا۔ کھانے میں دس سے زیادہ ڈشز تھیں۔ اب رات ہوچکی ہے۔ میں دن بھر کی تھکن سے چُور مگر لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر کوئی کام نہیں کرتا۔ عوام الناس کو خدا ہی راضی کرے۔

تازہ ترین