• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویزالٰہی وہ سبق کبھی بھولے ہی نہیں جسے یاد رکھنے سے 12واں کھلاڑی بھی اوپنر بن سکتا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان نے بھی ایسا کھلاڑی بننے کی کوشش کی مگر وہ دونوں ون مین آرمی ہیں جب کہ پرویزالٰہی کے سر پر چوہدری شجاعت حسین کی شکل میں ایک شجر سایہ دار موجود ہے۔ نوجوانوں کو بتاتا چلوں ، کہ چوہدری شجاعت حسین بھی چند روز وزیرِ اعظم رہے۔ جنرل مشرف کے ظفر اللہ جمالی کو ہٹانے اور شوکت عزیز کے بطور وزیراعظم الیکشن کروانے کے دوران بڑے چوہدری صاحب 55 روز ,30 جون تا 23 اگست 2004 عبوری وزیراعظم رہے۔ ماضی میں چوہدری برادران نے جس وجہ سے نواز شریف کی معیت سے دستبرداری کے بعد پرویز مشرف کی بیعت کی، لگ بھگ یہی وجوہات جہانگیر ترین اور علیم خان کی تھیں ، یعنی پنجاب کی پگ کا معاملہ تھا۔ بہرحال دوستوں کو یاد ہوگا کہ آصف علی زرداری نے پرویز الٰہی کیلئے جون 2012 تا مارچ 2013 ڈپٹی وزیرِاعظم کا عہدہ بھی تراشا تھا کہ گلشن کا کاروبار چلے !

چوہدری شجاعت حسین وہ سیاسی پیڑ ہے جس کی جڑیں عوام میں تو گہری نہیں تاہم اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں میں بہت گہری ہیں۔ ایک ہی گھروندے کے سیاستدان مرکز میں آصف علی زرداری اور ذاتی حکمتِ عملی کے سبب شریکِ اقتدار ہیں اور پنجاب میں صرف دس نشستوں کے بل بوتے پر سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ قومی سطح پر پرویزالٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے کارڈز کو صرف آصف زرداری سمجھ رہے ہیں ، اور پنجاب میں پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کی پولیٹیکل موومنٹ اور بیان بازیوں کو بھی آصف زرداری انجوائے کر رہے ہیں جب کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنی ضدکے سبب اورسابق وزیراعظم عمران خان پرویزالٰہی کو ’’امتحان الٰہی‘‘ سمجھے بیٹھے ہیں۔ پرویزالٰہی سخت بولتے ہیں تو مونس الٰہی پی ٹی آئی کے صدقے واری جاتے ہیں۔ پھر ایک طرف پرویزالٰہی کہتے ہیں عمران خان کی مانتا ہوں کہ وہ قائدِ اعظم کے بعد ایماندار لیڈر ہیں۔ جب جی چاہتا ہے یہ بھی سرِ بازار کہتے ہیں کہ عمران خان کو جنرل (ر) باجوہ کے خلاف ناپ تول کر بولنا چاہئے کہ وہ محسن ہیں۔ لیڈر اگرعمران خان ہے اور محسن باجوہ صاحب تو پھر پرویز الٰہی خود کیا ہیں اور چوہدری شجاعت حسین کیا ہیں ؟ مسلم لیگ (ق) کیا ہے؟ چوہدری ظہور الٰہی کیا تھے اور یہ دو دفعہ کے وزیرِ اعلیٰ اور شجاعت حسین وزیراعظم بغیر لیڈری و ایمانداری ہی بن گئے؟ وہ جوپرویز مشرف کو لیڈر مانا، بارہا وردی میں قبول کرنے کا کہا، کیا وہ قائدِ اعظم اور عمران خان کےپایے کے ایماندار لیڈر تھے؟

پیپلزپارٹی کے پنجاب میں سہارے کے متلاشی آصف علی زرداری نے 2008 کے اقتدار کے بعد ناصرف منظور وٹو کو وفاقی وزیر بنایا ، خواتین کی اسپیشل سیٹیں دیں بلکہ پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بھی بنایا مگر جیالوں نے وٹو کو تسلیم کیا نہ وٹو صاحب نے جیالوں کو ، اور ان کی صدارت پیپلزپارٹی پنجاب کیلئے جتنی مہلک ثابت ہوئی اس سے بھی کہیں زیادہ پنجاب کی پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ تحریکِ انصاف کیلئے خطرناک ثابت ہوگی، جس کو عمران خان وسیم اکرم پلس کہتے نہ تھکتے تھے اور چوہدری اس عثمان بزدار کو اکثر آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ گویا پرویزالٰہی کی ساری عمرانی تسلیمات کے پیچھے ذاتی ترجیحات ہیں، اور کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ کئی روز سے عمران خان پرویزالٰہی کے اعتماد کے ووٹ کے حصول کی جد وجہد میں کوشاں ہیں، اور پرویز الٰہی صاف صاف کہتے ہیں تحریک انصاف اپنی زبان پر کنٹرول رکھے، کسی اعتماد کے ووٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ گورنر کا غیر قانونی حکم ہے۔ دیکھا جائے تو حقیقی لیڈر شپ قانونی و غیر قانونی اقدامات کے درمیان پُل کا کردار ادا نہیں کرتی بلکہ روایات اور اخلاقیات کے علم کے ساتھ مبہم معاملات کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ لیڈرشپ کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ، وہ آئینی نکات کو کبھی کہیں خاموش پاتے ہیں، کہیں ذو معنی، کہیں متصادم اور کہیں اپنے ہی نکات کے خلاف ، یہی نہیں بعض اوقات مقبول بیانیے کے خلاف ، تو ایسی صورت حال میں قیادت ہی اخلاقیات، روایات و قانونی درجات کی بلندی کا اہتمام کرتی ہے، ہمارا المیہ یہ ہے، کہ قانون ساز مصلحتوں کے سبب قانون کی تعریف کرنے والوں کے سامنے بےبس ہو جاتے ہیں۔ کیا جناب افتخار محمد چوہدری اور جناب ثاقب نثار ماضی قریب میں بلا ضرورت اور بےحساب موضوعِ بحث نہیں رہے؟ تاحال ان پر سوال اٹھائے جانے کا سلسلہ ملک و ملت اور جمہوریت کیلئے سود مند ہے یا سود مند تھا ؟ آج یہ بات درست لگتی ہے کہ، آصف زرداری نے جناب افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے جو تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ کافی حد تک درست تھا علاوہ بریں وہ ’’اقامہ کیس‘‘ عدالتوں کے بجائے پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا چاہتے تھا جو درست اقدام ہوتا گر قاعدے سے کیا جاتا۔

ہاں، زرداری صاحب کا وہ بروقت درست جواب تھا کہ پنجاب میں اقتدار ہمارا حق نہیں، ورنہ 10 اور 7 والوں کا فرق ہی کیا ہے؟ خان صاحب اور زرداری صاحب کے مشترکہ چوہدری صاحب سے زرداری صاحب کو تو بالخصوص اور خان صاحب کو بالعموم توبہ کر لینی چاہئے۔ عدالتی اور لالچی شکستوں کی نسبت اصولی و جمہوری شکست کا سامنا کرنا ہی لیڈر شپ ہے۔ کسی عدالتی وزیرِ اعلیٰ اور جمہوری وزیرِ اعلیٰ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ لگتا ہے پرویزالٰہی خواہشات و نظریات و سیاسیات کے سامنے عثمان بزدار بالآخر گریس فُل ہونے جارہے ہیں۔

چوہدری صاحب! یوسفی نہیں تو زلیخی پیدا کیجئے!

تازہ ترین