• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمت، ہومیو پیتھی اور ماڈرن میڈیسن (المعروف ایلو پیتھی) کا جب بھی موازنہ کیا، میرے رشتے دار قمر اقبال صاحب نے ہمیشہ اختلافی ردِ عمل دیا۔ علاج پر وہ یقین ہی نہیں رکھتے۔ وہ ان گنے چنے لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ انسان خود ہی بیمار ہوتا اور خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ہمارے خاندان میں مگر ہومیو پیتھی عام ہے، لہٰذا اگر دوا لینی پڑ ہی جائے تو میاں بیوی دونوں ہومیو پیتھی کی شد بد رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مگر شدید بیمار رہنے لگے۔ بیماری کو نظر انداز کرنے اور اپنے ذاتی علاج سے آرام نہ آیا تو مجبورا ًہسپتال کا رُخ کیا۔ انکشاف ہوا کہ انہیں ہڈیوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ابھی وہ ابتدائی سٹیج پر تھا۔ ڈاکٹر نے کیمو تھراپی اور ادویات تجویز کیں، جن کا خرچ چھ ہزار روپے فی ہفتہ تھا۔چند ہفتے بعد قمر اقبال صاحب نے مگر اس علاج کو مسترد کردیا۔ وہ پشاور تشریف لے گئے۔ وہاں ایک عامل دم درود سے علاج کرتا تھا۔ اس نے انہیں پانی میں ملی ہوئی مٹی دم کر کے دی۔ وہ مٹی والا پانی پینے لگے۔ انہی دنوں وہ ہمارے گھر تشریف لائے تو ٹھیک ٹھاک معلوم ہوئے۔ خوشی سے کہنے لگے’’ اس مٹی نے مجھے میرے پاؤں پہ کھڑا کر دیا۔‘‘ کچھ عرصے بعد تکلیف لوٹ آئی اور زیادہ شدت کے ساتھ۔ مجبوراً واپس ہسپتال کا رُخ کیا۔ معلوم ہوا کہ کینسرنے جسم کے مزید حصوں کا متاثر کیا ہے۔ اب کیمو تھراپی اور ادویات کی لاگت بڑھ کے ساٹھ ہزار روپے تک جا پہنچی۔ کہنے لگے، میں نے اپنی زندگی میں سب کچھ جوڑ کر جو چار کروڑ روپے کا گھر بنایا ہے، کیا وہ میں ڈاکٹرز کو کھلا دوں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حکیموں سے روایتی علاج چل رہا ہے۔ کینسر دوپسلیاں کھا چکا ہے۔ انجام معلوم مگر آنکھیں بند کر کے معجزے کی امید پر سفر جاری۔حکمت اور ہومیو پیتھی سے علاج کرانے میں مضائقہ نہیں۔ شرط صرف ایک ہے کہ طبیب نے کسی یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔ ایک حکیم اگرانٹر کے بعد تین چار سال باقاعدہ تعلیم حاصل کر کے، پرچے دے کر کوالیفائیڈ ہونے کے بعد علاج شروع کرتاہے تو وہ اتنا ہی معزز ہے، جتنا کہ ڈاکٹر۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے طبیبوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔اکیسویں صدی کے حکیم کو اس قابل ہونا چاہئے کہ پنسل سے کاغذ پر انسان کا نظامِ انہضام بنا سکے۔ اگر اس سے بڑی شریانوں، ہڈیوں اور مسلز کے نام پوچھے جائیں تو وہ بتانے کے قابل ہو۔ اسے بلڈ برین بیرئیر کا نام اور کام معلوم ہو۔ حکیم سے مخلوق کی ایک جذباتی وابستگی ہے۔معمولی معاوضے کے عوض ہزاروں سال اس نے لوگوں کا علاج کیا۔ حکیم کا مذاق اڑانا اسی طرح ہے، جیسے ایک شخص گھوڑوں کا مذاق اڑانے لگے، جن پہ ہزاروں سال انسان نے سفر کیا۔ یہ احسان فراموشی ہے۔ دنیا میں مگر ایسی جڑی بوٹیاں اور کیمیکل بدرجہ ء اتم موجود ہیں، جن کے استعمال سے وقتی طور پر انتہائی بیمار شخص اٹھ کر چھلانگیں لگانا شروع کر دے۔ چھ ماہ بعد البتہ اگر وہ دل کے دورے سے وفات پا جائے تو کسی کا ذہن بھی اس طرف نہ جائے گا کہ بوٹی نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ ماڈرن میڈیسن میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جونادر ہیں۔ ایک ڈاکٹر ایک ہی چیز کا علاج کرتاہے۔ جلد کا ڈاکٹر ہرگز ہڈیوں کے کینسر کا علاج نہ کرے گا۔ سرجری صرف ماڈرن میڈیسن میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متبادل نظام ہائے علاج کرنے والوں کو بھی سرجری کرانی پڑے تو انہیں ماڈرن میڈیسن والوں کے پاس ہی آنا پڑتا ہے۔ یورک ایسڈ، کولیسٹرول، کیلشیم اور وٹامن ڈی کے بلڈ ٹیسٹ سے لے کر ایکو، اینڈو سکوپی، ایکسرے، ایم آرآئی سمیت سارے جدید تشخیصی ٹیسٹ ماڈرن میڈیسن میں ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر کبھی آپ کا متوازی روحانی علاج نہیں کرتا۔ روحانی علاج یا دعا ایک ایسی چیز ہے، جس پر کسی انسان کا اختیار نہیں۔ خدا دعائیں قبول کرتاہے لیکن سب کی دعا ایک جیسی قبول نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر کا کام ہے تشخیص کے بعد دوا تجویز کرنا۔ دوا کا اثر سب انسانوں پر ایک سا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نے چھ یا دس سال میں ایم بی بی ایس اور سپیشلائزیشن میں دوا کی تعلیم حاصل کی ہے، دعا کی نہیں۔ اگر اس نے روحانی علاج کرنا ہے تو متوازی طور پر اسے اپنی ایک خانقاہ کھول لینی چاہئے۔ البتہ کلر سیداں میں ایک ”شف، شف“ والا علاج چل رہا ہے۔ اس میں لوگ وہیل چیئر پر آتے ہیں اور ایک شف اپنے چہرے پر پڑتے ہی دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ علاج دنیا میں صرف پاکستان میں اور پاکستان میں صرف کلر سیداں میں ہی کیا جارہاہے۔ اکثر لوگ متبادل علاج کرشمے کی امید پہ کراتے ہیں۔ جب سب ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہو تو کسی پراسرار طبیب کی ایک پڑیا سے اچانک ناقابلِ یقین شفا۔ یہ کرشمہ ہو سکتاہے، خدا اگرکسی کی دعا قبول کر کے فرشتے کو طبیب کے روپ میں بھیج دے لیکن کرشمہ سب کے ساتھ نہیں ہوتا اور روز نہیں ہوسکتا۔ فرشتے مطب نہیں چلاتے۔بہت سے بیمار البتہ کرشمے کی تلاش میںنان کوالیفائیڈ طبیبوں سے علاج کراتے ہوئے اللہ کو پیارے ضرور ہو جاتے ہیں۔ میرے کئی جاننے والے اب عالمِ برزخ میں میرا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ طب کی تاریخ کاسب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ایک طبیب نبض چیک کر کے آپ کی تمام بیماریوں تک پہنچ سکتاہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین