جدوجہدِآزادی سے لے کر آزاد پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات کی بیش بہا قربانیاں اور خدمات شامل ہیں، تاہم اُن میں سے بہت سی مقتدر شخصیات کا ذکر نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے نسلِ نو ان کی خدمات اور کارناموں سے آگاہی نہیں رکھتی۔ ایسا ہی ایک نام برصغیر کے صفِ اوّل کے ماہرِ اقتصادیات، زاہد حسین کا بھی ہے، جنہیں پاکستان کے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ نوزائیدہ مملکت میں معیشت کے معمار کی حیثیت رکھتے تھے اور انھوں نے بانئ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش اور فرمان پر تنکا تنکا اکٹھا کرکے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک مستحکم ادارہ بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
پاکستان کے دورِ اوّلین میں ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے زاہد حسین 6 جنوری 1895ء کو کرنال میں پیدا ہوئے۔ اُن کا آبائی تعلق عُمرپور، ضلع مظفرنگرسے تھا۔ ابتدائی تعلیم کرنال سے حاصل کی، پھر لائل پور (فیصل آباد) سے میٹرک اور اسلامیہ کالج، لاہور سے ایف اے کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے برصغیر کی عظیم درس گاہ، علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کا شمار انتہائی ذہین، محنتی اور مستقل مزاج طالب علموں میں ہوتا تھا۔ علی گڑھ جیسی درس گاہ نے اُن کی صلاحیتوں کو مزیدجِلا بخشی۔ دورانِ تعلیم وظائف سمیت مختلف اعزازات بھی حاصل کیے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد 1918ء میں’’ انڈین آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس‘‘ کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور نمایاں کام یابی کے بعد اسی ادارے سے منسلک ہوگئے۔
وہ آڈٹ اینڈ اکائونٹس میں سرکاری ملازمت کرنے والےبرصغیر پاک وہند کے ابتدائی چند مسلمانوں میں سے ایک تھے۔ یہاں انھیں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا خُوب موقع ملا، اور اپنی ذہانت کے بل بُوتے پر آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ زینہ بہ زینہ ترقی کرتے ہوئے ہندوستان کے پہلے اسسٹنٹ آڈیٹر جنرل کے عہدے تک پہنچ گئے۔ بعدازاں، چیف کمشنر، دہلی کے فنانشل ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ دوسری جنگِ عظیم کے اوائل میں شعبہ سپلائی کے ایڈیشنل فنانشل ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ اُن کی کارکردگی اور بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے سینئرز معترف تھے۔
بہرحال کام یابیوں کا سفر جاری رہا اور شعبہ سپلائی کے بعد محکمہ ریلوے میں فنانشل کمشنرمقرر ہوئے۔ وہ تقسیم ِہند سے پہلے اس عہدے پر تعینات ہونے والے پہلے اور واحد مسلمان ہیں۔ علاوہ ازیں، کچھ عرصہ اپنی مادرِعلمی، علی گڑھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلرکے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ نظام حیدرآباد کی حکومت کے وزیرخزانہ بھی رہے۔
14اگست 1947ءکو پاکستان کا قیام عمل میں آیا،تو حکومتِ پاکستان نے انھیںبھارت میں پاکستان کا پہلا ہائی کمشنر مقررکردیا۔ یہ ایک مشکل ذمّے داری تھی۔ کیوں کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور مسلمانوں کی بدترین نسل کُشی جاری تھی۔ بھارت کے مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں آبادی کا انخلاء بھی ہورہا تھا۔ کشمیر سمیت ایک کے بعد ایک مسئلہ کھڑا ہورہا تھا۔ اسی کشیدہ صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتِ ہند نے ’’ریزرو بینک آف انڈیا‘‘ میں امانتاً رکھے پاکستانی حصّے کے 55کروڑ روپے اور فوجی ساز و سامان دینے سے انکار کردیا۔
اگرچہ بعدازاں یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہوگیا، لیکن مالی خودمختاری یقینی بنانے کے لیے پاکستانی قیادت نے بینکاری نظام کے قیام کو ریاست کی اوّلین ضرورت سمجھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جلد از جلد اپنا اسٹیٹ بینک قائم کیا جائے، چناں چہ مارچ 1948ء میں پاک، بھارت مذاکرات میں طے پایا کہ پاکستان جولائی1948ء تک اپنا مرکزی بینک قائم کرلے گا۔ صرف چند ماہ میں نوزائیدہ ریاست کا اپنا اسٹیٹ بینک قائم کرنا بظاہر ناممکن تھا، مگر اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اعلیٰ قیادت کی خواہش پر زاہد حسین سرگرم ہوگئے اور نئی دہلی سے مالی معاملات طے کرنے میں کام یاب رہے۔ 10مئی 1948ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بحیثیت سربراہِ مملکت، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کا قانونی حکم جاری کیا۔
انھوں نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’پاکستان کا قومی بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان یکم جولائی 1948 سے اپنا کام شروع کردے گا۔‘‘ اس کے بعد25جون1948ء کو گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرّری کا فرمان جاری کیا گیا، جس کے تحت زاہد حسین کو پاکستان اسٹیٹ بینک کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا۔ 29جون 1948ء کو بابائے قوم خصوصی طور پر کوئٹہ سے کراچی تشریف لائے اور یکم جولائی1948ء کو شام سات بج کر تین منٹ پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے دروازے پر لگا چاندی کا قفل، چاندی کی کنجی سے کھول کر باضابطہ افتتاح کیا۔ وہ تالا اور کنجی سیال کوٹ کے مسلمان کاری گروں سے خاص طور پر تیار کروائی گئی تھی۔
بینک کے باضابطہ افتتاح کے ساتھ ہی ریزرو بینک آف انڈیا سے65کروڑ روپے اسٹیٹ بینک آف پاکستان منتقل ہوگئے۔ منصوبے پر بروقت عمل درآمد سے بانئ پاکستان بہت خوش تھے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کے قیام کو نومولود ریاست کی مالیاتی خودمختاری کے لیے اہم قراردیتے ہوئے اپنے خطاب میں فرمایا، ’’بینک دولت پاکستان کا افتتاح ہمارے ملک کے مالیاتی میدان میں خودمختاری کی نشانی ہے اور آج رسم ِافتتاح کے موقعے پر اپنی موجودگی سے مجھے بے حد مسّرت ہورہی ہے۔ پاکستان کے اپنے مرکزی بینک قائم کرنے کے فیصلے کے بعد اس کام کے جاننے والے چند لوگوں کے پاس ابتدائی امور کے لیے بہت کم وقت رہ گیا تھا، مگر انہوں نے اَن تھک کوششوں اور سخت محنت سے مقررّہ تاریخ تک کام ختم کرلیا، مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب اُن کی محنت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مَیں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلسِ تحقیق‘‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیوں کر وضع کرتی ہے، جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصوّرات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمّے داری بھی سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔
اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا، تو ہمیں عوام کے لیے پُرسکون خوش حالی حاصل کرنے کے نصب العین میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے، جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچّے اسلامی تصوّرات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کرکے گویا ہم ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے اپنا فرض سرانجام دیں گے۔ انسانیت کو سچّے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے، کیوں کہ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچا سکتا ہے، بنی نوع انسان کی خوشی اور خوش حالی کا امین ہوسکتا ہے۔‘‘(بحوالہ ’’نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام‘‘)۔
قائد اعظم کے خطاب سے قبل زاہد حسین نے بہ حیثیت گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان،اپنی تقریر میں کہاکہ ’’ہم نے راہ میں حائل دشواریوں سے مقابلہ کرنےکا پختہ ارادہ کرلیا ہے۔ بینک کے قیام میں ہمیں وقت اور تربیت یافتہ عملے کی قلّت کے علاوہ کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ چیف اکاوئنٹنٹ اورسیکریٹری اسٹیٹ بینک کا تقرّر صرف ایک ماہ قبل ہی ہوا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے جن مسلمان افسروں اور عملے نے پاکستان کی ملازمت اختیار کرنے کافیصلہ کیا ہے، وہ بینک کی شاخوں کے لیے ناکافی ہیں، اس لیے عملے کی تربیت کے لیے دُور رس اسکیمز ناگزیر ہیں۔
ہمیں اس بینک کے قیام اور تدابیر کے اختیار کے لیے تین ماہ سے بھی کم عرصہ ملا، اس دوران چند افراد جنہیں ہم جمع کرسکے، حقیقتاً انہوں نے شب و روز کام کرکے وہ مثال قائم کی ہے کہ اسے آئندہ زمانے میں فخر سے یاد رکھ جائے گا، ہم کراچی میونسپل کارپوریشن کے شُکر گزار ہیں، جنہوں نے یہ عمارت ہمارے حوالے کی۔‘‘ افتتاح کے فوری بعد ہی زاہد حسین اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق پہلے دن سے مرکزی بینک کو مضبوط ادارے کی صورت دینے میں مصروف ہوگئے اور پاکستان ایکسچینج کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔
یکم اکتوبر 1948ء کو گورنر اسٹیٹ بینک کی زیرِنگرانی حکومتِ پاکستان نے پہلی مرتبہ اپنے کرنسی نوٹ جاری کیے، جن کی مالیت، پانچ، دس اور ایک سو روپے تھی۔ نوٹ پر حکومتِ پاکستان درج تھا اور دستخط وزیرِخزانہ غلام محمّد کے تھے۔ پھر یکم مارچ 1949ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دوروپے کا نوٹ جاری کیا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا وہ پہلا کرنسی نوٹ تھا، جس پر گورنراسٹیٹ بینک زاہد حسین کے دستخط تھے۔18ستمبر1949ء کو انٹرنیشنل مارکیٹ کا بڑا فیصلہ سامنے آیا، جس میں برطانیہ نے ڈالر کے مقابلے میں پائونڈ کی قیمت کم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد پائونڈ کم ہوکر آٹھ اعشاریہ 3ڈالر کے مساوی ہوگیا۔
بھارت سمیت کئی ممالک کی کرنسی کی قدر گرگئی، لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے مالیاتی ارکان، خصوصاً زاہد حسین کے مشورے کے بعد تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے پاکستانی کرنسی کی قدر برقرار رکھی۔ یہ غیر متوقع فیصلہ دنیا کے اُمیدوں کے برخلاف تھا۔ عوام کے شکوک و شبہات دُور کرنے کے لیے حکومت کی خصوصی ہدایت پر 22ستمبر1949ء کو گورنر اسٹیٹ بینک، زاہد حسین کی تقریر ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی، جس میں انہوں نے تفصیل سے اس فیصلے کی وجوہ بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’حکومت نے اپنا روپیا نہ گرانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ آخری اور اٹل ہے، آپ لوگ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، حکومت سختی سے اس فیصلے کو نافذکرے گی۔‘‘
پاکستان دولتِ مشترکہ کا واحد ملک تھا، جس نے اپنی کرنسی کی قدر بحال رکھی اور اس فیصلے پر دنیا بھر میں بڑی حیرت کا اظہار کیا گیا۔ بھارت کےساتھ ہمارے کئی مالی معاملات چل رہے تھے، اُس نے وہ سب روک دیے۔ لیکن آخرکار باقی دنیا کی طرح وہ بھی 25 فروری1951ء کو غیر مشروط طور پر پاکستانی کرنسی کی قدر تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اُن ہی دنوں وزیراعظم، لیاقت علی خان نے ساہیوال (منٹگمری) میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا کہ ’’ہم پرکرنسی کی قیمت گھٹانے کےلیے کافی دبائو ڈالا گیا، لیکن ہم اٹل رہے اور آج ہماری شرائط پر بھارت تجارت پر مجبور ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 19ستمبر 1949ء کو اسٹیٹ بینک پاکستان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ’’پاکستان کے پاس 128شیڈولڈ بینک ہیں، حالاں کہ قیامِ پاکستان کے وقت صرف62 بینک تھے، جب کہ ہم ایک ارب 24کروڑ84 لاکھ روپے کے ہندوستانی نوٹ واپس کرچکے ہیں۔‘‘ پھرزاہد حسین کے اسٹیٹ بینک کے دورِ گورنری ہی میں 9نومبر1949 ءکونیشنل بینک آف پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ انہوں نے پاکستان کی پہلی انشورنس کمپنی ’’پریمیئر انشورنس‘‘ کا بھی آغاز کیا۔ وہ پاکستان اکانومی ایسوسی ایشن کے بھی پہلے صدر تھے۔ اس کے علاوہ گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے انہوں نے اقتصادی، مالی اور بینکاری کی بہت سی اصطلاحات بھی اردو زبان میں متعارف کروائیں۔
مُلکی معیشت کا یہ معمار 19جولائی 1953ء کوگورنر اسٹیٹ بینک کے عہدے سے ریٹائر ہوا، تو اس گوہرِ نایاب کو پاکستان پلاننگ بورڈ کا پہلا صدر (اُس وقت چیئرمین) مقررکردیا گیا۔ ملکی تاریخ کے پہلے پنج سالہ منصوبے کی رپورٹ ان ہی کی فراست، تدبّر اور محنتِ شاقّہ سے تیار ہوئی۔ اس پورٹ میں انہوں نے مُلکی معاشی ترقی کےلیے زمین داری اور جاگیرداری نظام کے خاتمے کو ضروری قرار دیا۔ رپورٹ مکمل ہونے کے بعدحکومتِ پاکستان کی درخواست پر اُنھیں ٹیکس انکوائری کمیٹی کا صدر بنادیا گیا۔ مسلسل محنت کے کلیے پر کاربند رہنے والے زاہد حسین کی شخصیت قائداعظم کے فرمان ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ کی عملی تفسیر تھی۔
اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ٹیکسز سے متعلق تحقیقاتی ٹیم کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ وہ بلاشبہ، پاکستان کے اوّلین معماروں میں سرِفہرست تھے، اُنھیں قومی ترقی کے ہر کام سے شغف تھا۔ تعلیمی اداروں سے بے حد دل چسپی تھی، غرض یہ کہ اُن کی زندگی جہدِ مسلسل اور تگ و دود سے بھرپور تھی۔ اسی لیے قیامِ پاکستان سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک مملکتِ خداداد کے ہرفیصلے میں اُن کی فکری معاونت شامل رہی۔ غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل، روشن دماغ ماہرِ اقتصادیات اور ملک کے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک، زاہد حسین نے14 نومبر1957ء کی صبح کراچی میں واقع اپنی رہائش گاہ باتھ آئی لینڈ میں جان، جانِ آفریں کے سپرد کی۔
وطنِ عزیز کے عظیم فرزند کی نمازِ جنازہ مولانا مفتی محمد شفیع نے پڑھائی اور کراچی کی درس گاہ اسلامیہ کالج کے احاطے میں علّامہ شبیر احمد عثمانی کے پہلو میں سپردِخاک کیا گیا۔ اُنھوں نے اولاد میں تین صاحب زادے اور چار صاحب زادیاں چھوڑیں۔ سپریم کورٹ پاکستان کے سابق جسٹس، جسٹس ناصراسلم زاہد اُن ہی کے صاحب زادے ہیں۔