• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے کرہ ارض پر، تعلیمی نظام نوجوانوں کو گہرائی کے ساتھ باہم مربوط دنیا کے پیچیدہ حقائق کے لیے تیار کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جبکہ بہت سے تعلیمی نظام، نصاب کو مرکزی بنانے اور تربیت کو معیاری بنانے پر اس سے بھی زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ ایک بھرپور اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ تعلیم نوجوانوں کو ایسی آسان مہارتیں دینے کے قابل ہونی چاہیے، جن کی انہیں ایک ایسے عالمگیر معاشرے کا ادراک کرنے، اور اس میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔

وہ طلبا و طالبات جنھیں ہم آج تعلیم دے رہے ہیں، تاریخ انسانی میں کسی بھی نسل سے زیادہ، ثقافتی پس

ٔ منظر، عقائد، اقدار اور نقطہ نظر کی ممکنہ حد تک وسعت کے حامل ساتھیوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے، ساتھ کام کریں گے، اور تعلقات قائم کریں گے۔ یہ لازمی بات ہے کہ ہم انہیں معاشروں کی تعمیر کے ایسے وسائل مہیا کریں جو تنوع سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کا خیرمقدم کریں، جو تعصب کی آبیاری کرنے کی بجائے، دوسروں کے بارے میں ایک کشادہ ذہن کی سوچ کی ترغیب دیں کیوں کہ متبادل اتنے خوفناک ہیں کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ہر روز ایسی خبریں دیکھتے ہیں جو لوگوں کے تنوع کو مسترد کرنے، عدم برداشت کو اپنانے، اور حقیقت کے یک سنگی خیال کو دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کی خواہش رکھنے کا براہ راست نتیجہ ہوتی ہیں۔

مواصلاتی ٹیکنالوجی میں تیزی سے ہونے والی ترقی اس تبدیلی کے اہم محرکات میں سے ایک ہے، اور اس حقیقت پر غور کرنا اہم ہے کہ ہمارے طلبا و طالبات لگ بھگ یقینی طور پر پہلے ہی سے سوشل میڈیا تک اپنی رسائی کے ذریعے عالمگیر مباحثوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ بہترین بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ناقص مثالوں کا شکار بنایا جا رہا ہے کہ آن لائن کیسے باہمی رابطہ رکھنا ہے اور بدترین بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ پرتشدد انتہاپسندی میں تعصب پسندی کا ایک بڑا حصہ آن لائن وقوع پذیر ہوتا ہے۔

مکالمہ کیا ہے؟

بہت سی اصطلاحات ہیں، جنھیں یہ وضاحت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ جب طلبا و طالبات ایک دوسرے سے بات کر رہے ہوتے ہیں، بشمول تبادلہ خیال، سوچ بچار، مباحثہ اور مکالمہ۔ بہت کثرت کے ساتھ ان میں سے کچھ اصطلاحات کافی حد تک بدل بدل کر استعمال ہوتی ہیں اور اختلافات کے بارے میں درستگی رکھنا اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً اگر ہم ان شعبوں میں سے ایک شعبے پر توجہ مرکوز کرنے جا رہے ہیں۔ بہت سے کمرہ ہائے جماعت بہت زیادہ مباحث کو یکجا کرتے ہیں، یہ اس وقت ہوتا ہے جب طلبا و طالبات آزادی کے ساتھ تصورات اور خیالات پر بحث کرتے ہیں،عموماً ایک کافی غیر ساختہ طریقے سے۔ کمرہ ہائے جماعت میں سوچ بچار، ایک اتفاق رائے پیدا کرنے یا ایک فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کے معنوں میں، کی بھی مشق کی جاتی ہے۔ بہت سے تعلیمی نظام مباحثے کو طلبا وطالبات کی بنیادی مہارت کے طور پر بیش قیمت سمجھتے ہیں (اور درحقیقت یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے)۔ مکالمہ ان سب سے معمولی طور پر مختلف ہے اور یہ جن طریقوں سے مختلف ہے انہیں پہچاننا ہمارے لیے اہم ہے۔

مکالمے کی تعریف

اس فرق کی شاید بہترین طریقے سے مندرجہ ذیل موازنے میں وضاحت کی گئی ہے۔ مباحثے میں ایک جیتنے والا اور ایک ہارنے والا ہوتا ہے۔ ایک فرد بہتر دلیل پیش کرتے ہوئے جیتتا ہے اور دوسرا ہارتا ہے۔ ایک مکالمے میں دونوں جیتنے والے ہوتے ہیں۔ میں آپ سے سیکھتا ہوں، آپ مجھ سے سیکھتے ہیں۔ ہم اختلاف کرنے پر سمجھوتہ یا اتفاق کر سکتے ہیں۔ یہ بدرجہ غائت معکوس ہوتا ہے، اور یکسانیت اور فرق کو مساوی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ہم مکالمے کی وضاحت (ایک طالب علم کے نقطہ نظر سے) کچھ اس طرح کرتے ہیں:

’’ایسے لوگوں کے ساتھ مقابلہ جن کے خیالات، اقدار اور عقائد مجھ سے مختلف ہو سکتے ہیں، مکالمہ ایک عمل کا نام ہے جس کے ذریعے میں دوسروں کی زندگیوں، اقدار اور عقائد کو بہتر سمجھتا/سمجھتی ہوں اور

دوسرے میری زندگی، اقدار اور عقائد کو سمجھتے ہیں۔‘‘

مکالمے میں حصہ لینا طلباو طالبات کو اعلیٰ سطح کی فکری مہارتیں حاصل کرنے، ان کی مشق کرنے اور نقطہ ہائے نظر کے ایک سلسلے میں ایمانداری اور ادب کے ساتھ مشغول ہونے کی طرف لے جاتا ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ جو ان سے مختلف ہیں۔ بالواسطہ مقابلوں کے ذریعے، طلبا و طالبات کو تعصب پر قابو پانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

یہ ذہن نشین رکھنا اہم ہے کہ احترام کا مقصد اتفاق کرنا نہیں ہے۔ درحقیقت، احترام اصل میں اختلاف کے سیاق و سباق میں خود بخود آتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان مناسب طریقے سے اختلاف کرنے اور جھگڑے کی بجائے اظہارِ ِ ذات کے لیے دوسرے طریقے تلاش کرنے کی مہارتیں حاصل کریں۔

یہ یقین کرنا اہمیت کا حامل ہے کہ مکالمے کے خیال کے بہت سے مختلف نظریات یا ساختیں ہیں۔ ہم اس لفظ کو جس طریقے سے روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں اس کے تکنیکی یا عملی معنوں میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر رابرٹ جیکسن کلاس روم میں مکالمے کے اثر کی وضاحت کچھ اس طرح کرتے ہیں:

’’اس سوچ کے ساتھ، استاد اکثر ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے، وہ سوالات اُبھارتے اور ان کی وضاحت کرتے ہوئے شاگردوں کو کافی نمائندگی دیتے ہیں، جو تعلیم و تدریس میں مددگار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بچوں کی عزت نفس بلند کرنے، حساس مہارتوں کی تیاری کے مواقع فراہم کرنے، اور کم صلاحیتیں رکھنے والوں کو اظہار کرنے کے قابل بنانے ، اور اخلاقی سنجیدگی کا ایک ماحول بنانے کے لیے تشکیل دیا گیاہے۔‘‘