جدید سائنسی دنیا اس وقت تخلیق برائے تخلیق کے انتہائی اہم دور سے گزر رہی ہے۔ یہ دور ہے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا جب ہر چیز آپ کی سوچ کے دائرہ کا ر میں آجائیگی۔ تخیلات حقیقت کا روپ دھارنے لگ جائینگے۔ اس زندگی سے جہاں بہت سے مسائل حل ہونگے وہاں ان کے منفی اثرات بھی ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہونگے۔
خلا نورد روبوٹس
خلا نورد کیا کرتے ہیں؟ طاقت ور ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ایک رات کے بعددوسری رات میں، اور ایک سال کے بعد دوسرے سال میں آسمانوں کی خاک چھانتے ہیں یہ تھکا دینے والا کام ہے جو صبرآزما بھی ہے اور مستقل مزاجی بھی مانگتا ہے۔ اب انسانوں کو اس صبر آزما مرحلے سے نکالنے کے لیے روبوٹس آگئے ہیں۔ اب آسمانوں کی خاک چھاننے کا تھکا دینے والا کام بعض تجربہ گاہوں میں روبوٹس انجام دے رہے ہیں۔
بعض ستاروں کی روشنی ہلکی اور تیز ہوتی ہے۔ اس سے سائنس دان یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کائنات کی وسعت ایک جگہ جامد نہیں ہے بلکہ یہ مستقل پھیل رہی ہے، جیسے جیسے کہکشائیں ایک د وسرے کے پیچھے بھاگ رہی ہیں ویسے ویسے کائنات وسعت پذیر ہو رہی ہے اور اس کو دھکا ایک پراسرار طاقت Dark Energy سے مل رہا ہے۔ یہ متغیر ستارے ایک لمحے کے لیے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر فوراً غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو transients کہا جاتا ہے۔ Mount Palomer مشاہدہ گاہ پر ان ستاروں کے تجزیے کے لیے مصنوعی ذہانت کااستعمال کیا جارہا ہے۔
طاقت ور ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ان تصویروں کا تجزیہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے جو اس میں مل جانے والی آوازوں کے اشاروں کو صاف کر کے واضح تصویر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ Super nova جو کہ عارضی طور پر ظاہر ہوتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے کا بھی سراغ لگایا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے کمپیوٹر کا سماجی نیٹ ورک بنایا گیاہے جو کہ ایک اکائی کی صورت میں کام کریں گے۔ چلی،ہوائی، آسٹریلیا، جنوبی افریقا، ٹیکساس Canary Island میں رکھے گئے کمپیوٹر میں موجود خصوصی سافٹ ویئرز کے ذریعے ان کو آپس میں منسلک کیا جائے گا اور یہ ایک دوسرے سے ابلاغ کر سکیں گے۔ صرف ایک مشاہدہ گاہ میں ایک رات میں ذخیرہ کی گئی معلومات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا تجزیہ کرنے میں کئی صدیاں لگ جائیں گی۔
خود چلنے والی گاڑیاں
کیا آپ نے کبھی کمپیوٹر کے ساتھ شطرنج کھیلی ہے؟اور آپ کو یہ احساس ہوا ہے کہ یہ مشین کس قدر ذہین ہے؟ شطرنج کے ذہانت سے بنے ہوئے سیٹس دودہاہیوں سے موجود ہیں۔ اس عرصے میں مشینی ذہانت میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب ایک نجی کمپنی نے گوگل کا تیار کردہ برقی دماغ نصب کیا گیا اس دماغ میں سیکڑوں سینسرز لگے ہیں جو گاڑی کو سڑکوں پر بغیر کسی انسانی مداخلت کے محو سفر رکھتی ہے۔ اس سے خود کار ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کا آغاز ہو جائے گا جو آپ کی ایک سادہ سی ہدایت پر گاڑی کو منزل کی طرف گامزن کردیں گی۔
ان خود کار کاروں میں ویڈیو کیمرہ، Laser Range Finderاور ریڈار سینسر نصب ہیں ،تا کہ دوسری متحرک یا جامد اشیاء کے ٹکراؤ سے بچا جا سکے اور گاڑی سڑک پر سگنل کو با لکل درست اقدام میں پابند کرسکے۔ اس میں مسلسل رہ نمائی کے لئے جی پی ایس سسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گاڑی میں جار حانہ اور محتاط دونوں انداز سے چلانے کے لئے پروگرام نصب کیاگیا ہے، جو کہ اس میں سفر کرنے والی شخصیت کے مزاج کے حوالے سے چلے گی۔ اس کار کا تصور گوگل انجینئرز اور Stanford Artificial Intelligence Laboratoryکے سربراہ Thrune نے پیش کیا۔ مصنوعی ذہانت کی حامل اور خود کار ڈرائیونگ نظام کی حامل کاروں کے آنے سے ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا مایوس کن پہلو
کیا مصنوعی ذہانت کسی دن ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائے گی؟ خود سے ارتقاء پذیر ہونے والی مشین جن کے اندر دوسری مشینوں کو اپنے سے زیادہ بہتر بنانے کی صلاحیت ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ کو الیکٹرانک شطرنج کھیلتے ہوئے حیرت ہوئی ہو کہ یہ مشین کس قدر ذہین ہے اور یہ کس طرح اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہوئے آپ کو شکست دے دیتی ہے۔
اس وقت جو روبوٹس موجود ہیں وہ عام سے امور مثلاً آپ کے گھر کی صفائی اور آپ کی سادہ ہدایت پر عمل کر سکتے ہیں۔ لیکن اب جدید روبوٹس میں زیادہ پیچیدہ نظام مربوط کر دیا گیا ہے ۔ یہ روبوٹس تیراکی کرتے ہوئے شخص کے متعلق یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ ڈوبنے والا ہے اور لائف گارڈ کی مدد کر تے ہیں۔
اس کے علاوہ سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے یہ ڈرائیورکو اس بات سے آگاہ کر دیتے ہیں کہ آگے ٹریفک پھنسا ہوا ہے۔محققین اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں کہ وہ دن دور نہیں ہے جب مصنوعی ذہانت کی ”وحدانیت“ یا ”Singularity“ تخلیق ہوجائے گی اور یہ زنجیری تعامل Chain Reactionکے قابو سے باہر نکل جائے گا۔ اس کے بعد ایک مشین خود دوسری بہتر مشین تیار کرنے لگے گی۔
روبوٹک ہیلی کاپٹر
امریکی نیو ل ریسرچ آفس نے 89 ملین ڈالر کے ایک پروگرام کا منصوبہ بنایا ہے ،جس کے تحت آزادانہ کام کرنے والا فضائی کارگو نظام (AACUS) تیارکیا جائے گا۔ اس نظام کے تحت فوجی ایک روبوٹک ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوری طور پر سامان ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کر سکیں گے۔ اس اہم اور حساس کام کی انجام دہی کے لیے انسان کی ضرورت نہیں رہے گی۔
عمودی اڑان سے آغاز کرنے والے روبوٹک جہاز امریکا میں تیار کیے گئے ہیں، تاکہ جنگ میں اگلے مورچوں پر سامان بحفاظت بھیجا جاسکے اور اس میں پائلٹ کی زندگی کو لاحق خطرے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اب ان ہیلی کاپٹرز میں آٹو میٹک (خودکار) کنٹرول سسٹم بھی شامل کیا جارہا ہے۔
اس کے ذریعے جنگ کے اگلے مورچوں پر موجود فوجیوں کو ہاتھ میں رکھے جانی والی ڈیوائس کے ذریعے مخصوص سامان ضروریات منگوانے کی سہولت میسر آجائے گی اور ہیلی کاپٹر کے غول فوری نوعیت کی ضرورت کے سامان حکم ملتے ہی منتقل کرنا شروع کردیں گے۔ یہ نظام پیچیدہ امورکو انجام دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتا ہے۔
بیکٹیریا کو روبوٹ میں تبدیل کرنا
کیا آپ نے کبھی ایسا سوچا تھا کہ آپ بیکٹیریا کو روبوٹ کی طرح کوئی حکم دے سکیں گے،لیکن اب ایسا کرنا ممکن ہو گیا ہے ۔ایکول پولی ٹینکنک ڈی مانٹریال کے ادارے نینو روبوٹک لیبارٹری سے تعلق رکھنے والے پروفیسر Sylvain martel اور ان کے رفقا ء کار نے بیکٹیریا کو کنٹرول اور کمانڈ کرنے کے لیے ایک مقناطیسی آلہ کا ستعمال کیا ہے،تا کہ وہ ایک چھوٹا اہرام تعمیر کریں۔ بعض خاص بیکٹیریا (Magnetotactic bacteria) کے اندر قدرتی طور پر قطب نما Compas magnetosomes) (ہوتے ہیں جو ان کو مقناطیسی میدان کی کشش کے پیچھے چلنے پر مجبور رکھتے ہیں۔
سائنس دان ان جراثیم کو بیرونی مقناطیسی میدان کو استعمال کرتے ہوئے نفوذ کرواتے ہیں جو کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والا 50,000 بیکٹیریا پر مشتمل ایک مجموعہ( Swarm )تیار کرتے ہیں، بعدازاں 15 منٹ کے اندر چھوٹی اپاکسی اینٹوں سے چھوٹا اہرام تشکیل دے دیتے ہیں۔ ایک اور تجربے میں جراثیمی مجموعےکو خون کی مخصوص نالیوں میں سفر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اب سائنس دان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان چھوٹی Work Horses سے ایسے انجن کا کام لیا جائے جو بڑے نینوروبوٹ کے اندر دوا متاثرہ جگہ پر جا کر دوا کوخارج کر دے۔
ان بیکٹیریا کو دوسری بیماریوں کے سراغ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کوجینیاتی اور ادویاتی ٹیسٹ کے لیے مائیکر و فیکٹری کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کو”مصنوعی زندگی life Synthetic“ کے ساتھ امریکا میں Craig Venter اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں تیار کیا ہے۔اب کمپیوٹر سے تیار کردہ DNA بیکٹیریا میں داخل کیے جا سکتے ہیں، جن کو نئی جینیاتی اطلاعات کے ساتھ دوبارہ تیار کیاجا سکتا ہے، تا کہ دواؤں، جراثیم کش، ایندھن اور توانائی کی انسانی ضروریات کے حوالے سے ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
مصنوعی ہاتھ…… سوچ کے ذریعے کنٹرول ہونے والے
اس وقت دنیا بھر میں سوچ سے کنٹرول ہونے والے آلہ جات تیزی سے جگہ بنا رہے ہیں۔ اب ایک معذور فرد کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ محض اپنی سوچ کے ذریعے وہیل چیئر چلا سکے اور کار ڈرائیو کر سکے۔ اب دو انڈر گریجویٹ بائیو میڈیکل انجینئرنگ کے طالب علموں Thiago Caires اور Michal Prywata جو کہ Ryerson University ٹورنٹو کے طالب علم ہیں ایسے مصنوعی ہاتھ تیار کر لیے ہیں جن کوسوچ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کو Compressed Air سے طاقت دی جاتی ہے اور اس کو بنانا بھی نسبتاً آسان ہے جس میں مشکل سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ عام طور پر خراب یا ناکارہ ہاتھ کو مصنوعی ہاتھ سے تبدیل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
اس ہاتھ کو استعمال کرنے والا شخص کھوپڑی پر پہنی ہوئی ٹوپی کے ذریعے اس مصنوعی ہاتھ کو ہدایات جاری کرتا ہے۔ اس ٹوپی میں سنسر لگے ہوتے ہیں جو کہ دماغ میں خون کی گردش میں ہونے والی تبدیل کا احساس کر لیتے ہیں اور اس کے بعد سوچ کے ذریعے احکامات منتقل کر دیے جاتے ہیں۔
یہ سگنلز ہاتھ میں نصب مائکرو پروسیسرز تک منتقل کیے جاتے ہیں جس میں اوپر یا نیچے یا دائیں بائیں جیسے سگنلز کے نمونے پہلے ہی سے ذخیرہ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ مائکرو پروسیرز دماغ سے آنے والے سگنلز کا موازنہ ذخیرہ کیے ہوئے سگنلز سے کرتے ہیں۔