• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کے بعد زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ایک پولیس اہلکار جو سر میں چوٹ لگنے کے بعد شدید زخمی ہونے کے باوجود حوصلے میں تھا،ریسکیو اہلکار نے اس کے جسم سے بہتا خون روکنے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ ایک کونے میں نماز کی ادائیگی کے دوران اچانک دھماکہ ہواتو وہ نیچے گر پڑا۔اس نے کراہتے ہوئے پوچھا،جسم کے مختلف حصوں میں درد ہورہا ہے ،کیا میں بچ جائوں گا؟اور تو کوئی غم نہیں بس میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں ،اگر مجھے کچھ ہوا تو پتہ نہیں میری ماں کا کیا ہوگا؟ریسکیو 1122اہلکار کے مطابق ابھی اس زخمی نوجوان کو لےکر لیڈی ریڈنگ اسپتال کے دروازے تک بھی نہیں پہنچ پائے تھے کہ اس کی سانسیں اُکھڑ گئیں اوروہ دم توڑگیا۔دہشتگردی کی اس واردات میں لقمہ اجل بننے والے 100افراد میں سے ہر ایک ہی اپنی ماں کا لاڈلا رہا ہوگا۔یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ان لاڈلوں کی مائیں کس حال میں ہوں گی۔یوں تو رنج و الم کی اس گھڑی میں گریہ زاری کے سوا کوئی آواز کانوں تک نہیں پہنچ رہی مگر نوحہ گری کے شور میں ایک سوال نما جملہ سماعتوں سے ٹکرایااور مضطرب کرگیا۔خود کش حملہ آور پولیس لائن کی مسجد تک پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟سرتسلیم خم کہ یہ سیکورٹی کی ناکامی ہے مگر جس ملک میں دہشتگردوں کی کمر کئی بار توڑ دیئے جانے کے باوجود وہ رینگتے ہوئے افواج پاکستان کے جنرل ہیڈ کوارٹرز یعنی جی ایچ کیو تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہوں ،کیا وہاں اس طرح کا سوال کوئی معنی رکھتا ہے؟اگر نااہلی اور ناکامی سے متعلق سوال ہی اُٹھانے ہیں تو اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور اہم ترین سوالات دستیاب ہیں جن کے ذریعے دہشتگردی کی یہ گُتھی سلجھائی جا سکتی ہے۔ میں بعض سوالات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد بتایا گیا کہ پوری قوم جاگ گئی ہے،اچھے اور برے طالبان میں فرق ختم کردیا گیا ہے،آپریشن ضرب عضب شروع کیا جارہا ہے ،ان کارروائیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے فوجی عدالتوں کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیا گیا۔تین سا ل تک ان کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔نئے سپہ سالار آئے ،انہوں نے آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا۔بتایا گیا کہ دہشتگردوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے۔اگر یہ دعویٰ درست تھا تو پھر خود کش دھماکوں اور حملوں کی اس نئی لہر کا سبب کیا ہے؟اب تک جتنے فوجی آپریشن ہوئے ،ان کی کامیابی یا ناکامی کی شرح کیا رہی؟وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نئی عسکری مہم جوئی کا عندیہ دیا ہے مگر کسی بھی نئے فوجی آپریشن سے پہلے ان سوالات کے جواب سامنے آنا بہت ضروری ہے۔2۔اے پی ایس حملے کی انکوائری رپورٹ اب تک سامنے کیوں نہیں آئی ؟اسے قومی سلامتی کے قالین میں کیوں لپیٹ دیا گیا؟شہدائے اے پی ایس کے والدین ابھی تک انصاف کے متلاشی ہیں ،قومی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ان والدین کو خاموش کروانے کی کوشش کیوں کی گئی؟اے پی ایس شہدا فورم کے صدر ایڈوکیٹ فضل خان کو قاتلانہ حملوں کے بعد ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا؟

3۔سانحہ اے پی ایس یا پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے حالیہ خودکش حملے میں شہید ہونے والے اپنی مائوں کے لاڈلے ضرور ہوں گے لیکن کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ ریاست کے ’لاڈلے‘ کوئی اور ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست نقیب اللہ کے قاتل رائو انوار کو لاڈ اور پیار کا مستحق سمجھتی ہے۔ریاستی اداروں کے نزدیک تحریک طالبان پاکستان کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان لاڈلا ہے۔کیا کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ اے پی ایس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے اس شخص کو پشاور کے سیف ہائوس میں بچوں سمیت مہمانوں کی طرح کس کے حکم پر رکھا گیا اور پھر وہ کون تھا جس نے اسے فرار ہونے میں مدد فراہم کی؟

4۔جب افغان طالبان نے کابل میں داخل ہونے کے بعد ملک کا انتظام سنبھال لیا تو ایک شخص جس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا ،اس نے ایک پنج تارہ ہوٹل کی لابی میں خود کو ’’فاتح کابل‘‘کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا تھا’فکر نہ کریں ،سب ٹھیک ہوجائے گا‘۔اس پالیسی بیان کے بعد بعض لوگ یوں جشن مناتے رہے جیسے اب افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن گیا ہے۔وزیراعظم پاکستان دنیا بھر میں طالبان کی وکالت کرتے رہے۔یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے تزویراتی اعتبار سے پاکستان کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔قوم کو اس فریب میں مبتلا کرنے اوردھوکہ دینے والے کون تھے ؟

5۔کابل جا کر چائے نوش فرمانے والے انہی صاحب کو بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا گیا۔خیر سگالی کے نام پر دہشتگردوں کو جیلوں سے رہا کردیا گیا۔بات چیت اور جنگ بندی کی آڑ میں ان دہشتگردوں کو خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں اپنا نیٹ ورک بنانے اور مسلح دہشتگرد گھسانے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔مطلوبہ اہداف حاصل ہوتے ہی جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان ہوگیا اور دہشتگردی کی نئی لہر شروع ہوگئی۔اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟کیا اس شخص یا ان اشخاص کو کٹہرے میں لایا جائے گا؟6۔جب طالبان نے نئے سرے سے اپنے ٹھکانے بنانا شروع کردیئے،مسلح دہشتگرد کھلے عام دندنانے لگے اور مقامی افراد نے طالبانائزیشن کی اس تازہ لہر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔دہشتگردوں کی صف بندی کے خلاف نہتے عوام سڑکوں پر نکلے اور بھرپور مظاہرے ہوئے تو ریاست نے ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان کی مخالفت کیوں کی؟

7۔آخری سوال،اگر پولیس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پہلی دفاعی لائن ہے تو دفاع کے لئے مختص بجٹ میں سے کچھ حصہ اسے کیوں نہیں دیا جاتا تاکہ یہ قومی نغمے ،فلمیں اور ڈرامے نہ سہی ،ہتھیار تو خرید سکے؟

تازہ ترین