• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور پولیس لائن کی مسجد کے خودکش دھماکے میں ایک سو چار نمازی شہید ہو گئے ہیں اور تقریباََ ساٹھ کے قریب زخمی ہیں جن میں سے ستائیس کی حالت تشویش ناک ہے ۔بلاشبہ پشاور آرمی پبلک سکو ل میں 16دسمبر کو ہمارے پھولوں اور کلیوں کے مسلے جانے کے بعد یہ بڑا اندوہناک سانحہ ہے جس میں اتنی قیمتی انسانی جانیں یو ں بے دردی سے لے لی گئیں۔ بتایا جارہا ہے کہ نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران پہلی صف میں کھڑے بمبار نے دس کلو مواد کے ساتھ خود کو اڑا لیا اس پر پہلے تو پورے میڈیا میں یہ خبر چلی کہ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے پھر عوامی غم و غصہ سامنے آنے کے بعد یہ بتایا گیا کہ انہوں نے تردید کردی ہے البتہ ان کا ایک گروپ جس کی رہنمائی خالدعمر خراسانی کرتا تھا اس نے یہ کہا کہ ہم نے اپنے لیڈر خالد خراسانی کی شہادت کا بدلہ لیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اللہ کے گھر میں سر بسجود نمازیوں کا خون بہانے والا کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا ہم شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، نیشنل ایکشن پلان پر پوری قوت سے عملدر آمد یقینی بنائیں گے، وزیر دفاع نے بھی کچھ اسی سے ملتی جلتی گفتگو کی کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہوگی۔ طاقتوروں کے متعلق بھی بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے بھی کچھ فیصلے کئےہیں یہ کہ امن کے حصول تک دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا جائے گا ،انہیں پنپنے نہیں دیں گے اور اس سانحہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

سب سے پہلے درویش کو ان لوگوں سے شکایت ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے وہی رسمی گھسے پٹے فقرے بول رہے ہیں جن میں سے ایک تواتر کے ساتھ دہرایا جارہا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ میں ایسی بھیانک کاروائی کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا حالانکہ کسی مسجد یا عبادت گاہ میں یہ کوئی پہلا یا آخری گھناؤنا فعل تو نہیں ایسے کتنے ہی سانحات ہم دیکھ چکے ہیں ۔ وزیراعظم کی دوسری بات یہ ہے کہ ہم شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے اس نوع کی لفاظی کرنے والوں نے معصوم بچوں کی ہلاکتوں پر بھی کچھ ایسی ہی باتیں کی تھیں تو ان بچوں کی ماؤں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے بچوں کو حصول تعلیم کیلئے سکول بھیجا تھا کسی قربانی یا شہادت کیلئے رخصت نہیں کیا تھااپنے شہروں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اپنی کوتاہی و غفلت کو لفاظی میں چھپانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان کی تیسری بات کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا اتنے بڑے سانحہ کے بعد ہمیشہ اس نوع کے الفاظ سننے میں آتے ہیں سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان 2014کی قیادت ِ صغریٰ کے بعد قومی اتفاق رائے سے طے پایا تھا اور یہ ریاست یا حکومت کی اولین ذمہ داری تھی کہ ان طے کرد ہ اقدامات پر من و عن عمل درآمد کیا یا کروایا جاتا لیکن ایسا مکمل طور پر نہ ہو پایا ۔ آج سارا زور اس بات پر ہے کہ خودکش بمبار اتنے حساس ایریا میں پہنچ کیسے گیا اور و ہ بھی اتنے بھاری بارود کے ساتھ کوئی شک نہیں کہ یہ سیکورٹی لیپس ہے مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ آپ لوگ شدت پسند مذہبی و جہادی نظریات اور ان پر استوار تنظیموں کو پالتے پوستے کیوں ہیں؟کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب طالبان کے ہاتھوں اشرف غنی کی کابل حکومت گرائی گئی تو پاکستان کے وزیراعظم نے یہ بیان دینا ضروری سمجھا کہ طالبان نے امریکی غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنا ملک آزاد کروالیا ہے حالانکہ انہی دنوںپوری دنیا کے آزاد میڈیا میں اس نوع کی رپو رٹس چھپ رہی تھیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے لگ بھگ سات ہزار شدت پسندوں کو جنہیں غنی حکومت نے جیلوں میں ڈال رکھا تھا مگر ہمارے اسلامی بھائیوں نے آتے ہی سب سے پہلے ان جیلوں کو توڑا اور مطلوب تمام ملزموں کو بلا تمیز رہا کردیا اور ہمارے عسکری و حکومتی نمائندوں نے ان کے ساتھ مذاکرات شروع کردیے۔ہماری سٹریٹیجک پالیسی بنانے والوں کی طرف سے تب یہ کہا جاتا تھا یا سمجھایا جاتا تھا کہ غنی حکومت تو انڈیا کی حلیف یا مودی کی یار ہے اس لئے وہ پاکستان پر حملہ آور ہونے والے عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے یا انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ طالبان جیسے اسلامی و جہادی لوگوں کے آنے سے انڈین خفیہ ایجنسیوں کی پسپائی ہوجائے گی اس لئے انہیں کشمیر میں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آج پھر وہی گھسی پٹی کہانیاں دہرائی جارہی ہیں وزارت دفاع کی کرسی پر براجمان زیرک فرما رہا ہے کہ بھارت ٹی ٹی پی کو ہر قسم کی ٹریننگ دے رہا ہے، تو پھر فرق کیا ہوا آپ کے محبوب افغان طالبان اور اشرف غنی یعنی مودی یا بائیڈن کی پٹھو گورنمنٹ میں؟معیشت ٹھیک نہیں ہے تو کیا ہوا بہت سا مال غنیمت مل جائے گا پوری اسلامی دنیا تمہاری مدد کیلئے بے قرار بیٹھی ہے اس کے بعد کیا کہا جائے دہشت گردی کی کمر تو تم لوگوں نے بہت پہلے کی توڑ دی تھی اب ٹوٹی کمر کے ساتھ یہ جہادی پروگرام چل رہا ہے، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین