• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دو فروری کوموجودہ پاکستان میں جنم لینے والے ہمارے خطے کے ایک ایسے عظیم انسان کی سالگرہ ہے جسے دنیا خوشونت سنگھ کے نام سے جانتی ہے۔ صحافت، وکالت، سیاست اور سفارت کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے خوشونت سنگھ کو کو خدا نے نناوے سال کی طویل عمر بخشی، انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، وہ جب تک زندہ رہے اپنے قلم کی طاقت سے کروڑوں لوگوں کو مداح بنا تے گئے اورجب دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے بے شمار چاہنے والوں کو سوگوار کرگئے۔خوشونت سنگھ آج سے 108سال قبل موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے جہاں ان کابچپن اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ گزرا، حصولِ تعلیم کیلئے لاہور، دہلی اور لندن کا رُخ کیا،تقسیم ِ ہند کے موقع پر انہیں حالات نے اپنی جنم بھومی سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا، وہ سرحد پار ضرور چلے گئے لیکن اپنے دل و دماغ میں ہمیشہ پاکستان کو بسائے رکھا،وہ ہر سال پاکستان کی یاتراکرتے تھے، وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ انہیں اپنی جنم بھومی پاکستان سے اتنا ہی پیار ہے جتنا وہ اپنے دیش بھارت سے محبت کرتے ہیں۔ان کی پاکستان میں مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ پاکستان آتے تھے تو ٹیکسی والے ان سے کرایہ اور دکاندار پیسے نہیںلیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خوشونت سنگھ کے حلقہ احباب میں قائداعظم بھی شامل تھے جو خوشونت کی شادی کی تقریب کے نامی گرامی مہمانوں میں شامل تھے، پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کی خواہش تھی کہ خوشونت سنگھ کو لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا جائے۔ خوشونت سنگھ نے بٹوارے کے موقع پر خون خرابہ اپنی آنکھوں سے دیکھاجسکی عکاسی انہوں نے اپنے شہرہ آفاق ناول ٹرین ٹو پاکستان میں کی،خوشونت سنگھ کے مذکورہ ناول نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے اور انہیں عالمی پائے کے لکھاریوں کی فہرست میں شامل کردیا۔خوشونت سنگھ بطور سفارتکار کینیڈا میںمتعین رہے،لندن کے انڈیا ہاؤس، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف، فارن آفس اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی منسلک رہے، وہ پارلیمان کے ایوان ِ بالا راجیہ سبھا کے بھی رُکن رہے۔اپنے والد اور بعدازاں اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد تنہا ہوگئے تواپنی بقایا زندگی کا مقصد لکھناپڑھنا بنا لیا۔ اخبارسےان کا تعلق اتنا مضبوط تھا کہ آخری وقت تک ان کا کالم چھپتا رہا،وہ ہفتہ وار ایک کالم تحریرکرتے تھے ان کا موضوع اتنا جاندار ہوتا تھا کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ انہیں پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے،وہ انگریزی زبان کے لکھاری تھے لیکن ان کے کالم اردو اخبارات میں بھی باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے، وہ اپنی تحریروں میں مرزا غالب اورشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے اشعار استعمال کرتے تھے۔انہوں نے فکشن،نان فکشن،ہسٹری اورلٹریچر سمیت ہر ایشو پر جو بھی کتاب تحریر کی وہ مقبولیت کے لحاظ سے نمبر ون ثابت ہوئی،انہوں نے سکھ اِزم اور سکھوں کی تاریخ پر’اے ہسٹری آف سکھ‘نامی کتاب تحریرکی جسے دنیا بھر میں بھرپور پذیرائی ملی، بھارت میں تیزی سے پنپتی مذہبی شدت پسندی کے تدارک کیلئے انہوں نے کتاب 'اینڈ آف انڈیا(بھارت کا خاتمہ)تحریر کرکے امن پسند حلقوں کے دِل جیت لئے۔خوشونت سنگھ صحافت کے میدان میں ہندوستان ٹائمز، نیشنل ہیرالڈ، دی الیسٹرڈ ویکلی آف انڈیا جیسے قومی اخبارات سے منسلک رہے، بطور صحافی انہوں نے اکہتر کی پاک بھارت جنگ سمیت خطے کے اہم واقعات کی میڈیا کوریج کی۔اپنی کتاب ’خوشونت نامہ‘ میں اپنے متعلق تفصیل سے بیان کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے پہچانا جاؤں جس نے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری ہے۔زندگی کے آخری حصے میں طنزومزاح ان کی پہچان بن گیا تھا، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جو بھی خوشونت سنگھ کی محفل میں آتا تھا وہ کبھی بور نہیں ہوتا تھا،ان کے پاس لوگ اداس ہو کر آتے تھے اور ہنستے کھیلتے جاتے تھے۔وہ صحافت کا شعبہ اختیارکرنے والوں کیلئے ایک رول ماڈل تھے، وہ نوجوان لکھاریوں کی رہنمائی کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے،وہ کتابوں کی اشاعت سے حاصل کردہ رائلٹی کا ایک پیسہ بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ تمام رقم خیراتی اداروں کو عطیہ کردیتے تھے۔خوشونت سنگھ ننانوے سال کی عمر میں 20 مارچ 2014 کو نئی دہلی میں ہنستے مسکراتے انتقال کر گئے، مرنے سے قبل انہوں نے وصیت کی کہ آخری رسومات کے بعدان کی راکھ کو پاکستانی گاؤں ہڈالی کے اس اسکول میں پہنچایا جائے جہاں وہ کبھی بچپن میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو خوشونت سنگھ جیسی امن پسند شخصیات کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔دھرتی کے عظیم سپوت خوشونت سنگھ کو سالگرہ مبارک۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین