امریکی جریدے بلوم برگ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سے روزانہ پچاس لاکھ امریکی ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ جاری ہے جس سے امریکہ اور مغرب کی جانب سے طالبان حکومت کو اربوں کے غیر ملکی ذخائر تک رسائی سے انکار کے بعد زبوں حالی کی شکارافغان معیشت کو کچھ سہارا مل رہا ہے،تاہم اسلام آباد کیلئے ڈالر کی عدم دستیابی ملک میں ایک بہت بڑے اقتصادی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہے، بلوم برگ نے پاکستان سے اسمگل شدہ ڈالرز کو طالبان حکومت کیلئے لائف لائن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگست 2021میںجب طالبان نے دو دہائیوں کے بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تو امریکہ اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9بلین ڈالر سے زیادہ کے ذخائر کو منجمدکر دیاتھا جبکہ افغانستان کواپنے معاشی معاملات چلانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 10 سے 15 ملین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان سے روزانہ لگ بھگ پانچ ملین ڈالرافغانستان اسمگل کئے جارہے ہیں، جریدےکی رپورٹ کے مطابق کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد دسمبر 2021میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر 124 افغانی تھی جو مضبوط ہو کر90افغانی فی ڈالر پہنچ گئی ہے، افغانستان کی کرنسی گزشتہ 12ماہ کے دوران دنیا کی مظبوط کرنسیوں میں شمار ہوتی ہےجبکہ پاکستان کی کرنسی بدترین گراوٹ کاشکار ہوکر نچلی ترین پوزیشن پر آگئی ہے،گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی روپیہ امریکی ڈالرکے مقابلے میں تقریباً 37 فیصد بے قدری کا شکار ہوا ہے جو کہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ ہے، امریکی جریدے نے پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کی وجہ تباہ کن سیلاب، بڑھتی مہنگائی، سیاسی بحران اور غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی کو قرار دیا ہے،امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا بینکنگ سسٹم عالمی مالیاتی اداروں سے منسلک نہیں،تاہم میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان کے زیر انتظام مرکزی بینک دا افغانستان بینک ہرہفتے 17ملین ڈالر مارکیٹ میں داخل کرتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرکزی بینک کے پاس ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ڈالر کے ذخائروافر مقدار میں موجود ہیں۔میں سمجھتا ہوں ملک میں حالیہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ ڈالرز کی افغانستان اسمگلنگ بھی ہے،اس حوالے سے ایک ویڈیو تو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی تھی جس میں بھاری تعداد میں ڈالرز سے بھرے بیگ سرحدپار اسمگلنگ کیلئے تیار کئے جارہے تھے۔گزشتہ سال دسمبر میں جب امریکی ڈالر بے قابو ہوکر 200روپے کی حد عبور کرگیاتو وفاقی وزیرخزانہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں انکشاف ہوا تھا کہ اسمگلر مختلف ہتھکنڈوں سے ڈالرز کی افغانستان منتقلی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں نہ صرف پھلوں کے ٹرک بلکہ معذور اور بیمار افرادکو بھی استعمال کیا جارہا ہے، تاہم مسئلے کی تشخیص کے باوجود اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی واضح روڈ میپ پیش نہیں کیا جاسکا تھا۔بلاشبہ امریکی انخلاسے قبل افغانستان میں ڈالرز کی ریل پیل تھی، ہر ہفتے اتحادی افواج کے اخراجات کیلئے اندازاََ 50 کروڑ ڈالر آتے تھے جبکہ اقوام متحدہ، یورپی یونین سمیت عالمی اداروں کی جانب سے انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر بھاری امداد کاسلسلہ بھی تھا، ماضی میں ڈالروں کی اتنی بڑی تعداد میں فراوانی کی وجہ سے پاکستان بھی مستفید ہوتا رہا، تاہم طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی، عالمی برادری کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کئے جانے کی بناء پر غیریقینی صورتحال میںاضافہ ہوا اور لوگوں نے لین دین کیلئے افغان کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کو ترجیح دینی شروع کردی مجھے یاد ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے وقت اگست 2021میں ایک امریکی ڈالر 160پاکستانی روپے کے آس پاس تھاجبکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 22بلین ڈالر تھے،ایک ماہ بعد ستمبر 2021ء میں کابل میں ایک امریکی ڈالر178پاکستانی روپے کا دستیاب تھا جبکہ پاکستان میںاس وقت ڈالر 170روپے کاہوچکا تھا۔افغانستان کی پیچیدہ صورتحال کا پاکستان پر لامحالہ طور پر اثر پڑا ، ہمیں اس حوالے سے ایک ٹھوس حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ افسوس، ہم اندرونی چپقلش میں الجھے رہے، ہماری سیاسی جماعتوں کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہوگئی، دوسری طرف بیرونی دنیا سے ڈالرز کی کابل منتقلی کی بند ش اور پرکشش منافع کی وجہ سے ڈالرز کی افغانستان اسمگلنگ تشویشناک حد تک بڑھتی چلی گئی۔آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ چند سال قبل ڈالرکا بہاؤ افغانستان سے پاکستان کی جانب تھا اور اب پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستانا سمگل ہو رہے ہیںجسکا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو مہنگائی کے منہ زور طوفان کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ آج مختلف چیلنجز میں گھرے پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج ڈالر کی اونچی اُڑان پر قابو پانا ہے، ایسی صورتحال میں ہمارے اربابِ اختیار کو ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ تاریخ کمزوریوں کومعاف نہیں کیا کرتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)