• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 6 فروری 2023 کی صبح کی بات ہے جب ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت کے زلزلہ نے ترکی اور ہمسایہ ملک شام کو برف باری اور سردی میں شدید متاثر کیا۔ امریکن جیولوجیکل سوسائٹی اور ترک ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی (اے ایف اے ڈی) کے مطابق زلزلے کا مرکز علاقے کے جنوب وسطی حصے میں پایا گیا۔ اس زلزلے سے ترکی کے دس شہر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اس شدید نوعیت کے زلزلے نے 1700 سے زائد عمارتوں کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا ہے۔ اس بڑے جھٹکے کے بعد 9 گھنٹوں کے بعد 7.5 شدت کا ایک اور جھٹکا لگا ،جس کے نتیجے میں مزید نقصانات ہوئے اورنامکمل طور پر تباہ شدہ عمارتیں موم کی طرح منہدم ہوگئیں۔ مزید برآں معمولی آفٹر شاکس جاری ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک ہے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ لاکھوں فراد بغیر چھت اور پناہ گاہ کے ہیں۔

زلزلے کےبعد ایک بار پھر ایک سازشی تھیوری کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، جس میں امریکا کی جانب سے حاصل کی گئی اور پیش کی جانے والی جدید و انوکھی ہارپ (HAARP)ٹیکنالوجی کے جان بوجھ کر غلط استعمال کے امکانات کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہارپ سے مراد ہائپر ایکٹو ایکوسٹک ریسرچ پروگرام ہے جو امریکا کی ریاست الاسکا میں 1993 میں امریکی فضائیہ، بحریہ اور متعلقہ ایجنسیوں کی مالی اعانت سے شروع کیا گیا تھا۔ اسے بہتر مواصلات، نیوی گیشن اور سیکیورٹی مقاصد کے لیے لانچ کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ دشمن کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا اس کے مقاصد میں شامل تھے۔ یہ پروگرام 2014 میں مکمل ہوا۔ 2015 میں اسے الاسکا یونیورسٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ہارپ ٹیکنالوجی کی برقی مقناطیسی لہروں کو مقامی موسم اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کو لانے کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک کے آئنواسفیئریا کرۂ ارض کے اردگرد ایک غلاف(Ionosphere)پر مرکوز کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان لہروں کو فضا یعنی آئنواسفیئر سے واپس منعکس کرکے زمین کی گہری ٹیکٹونک پلیٹوں میں داخل کیا جا سکتا ہے جو ان میں ارتعاش کا باعث بنتی ہیں اور اس طرح بڑے پیمانے پر زلزلے اور سمندروں میں سونامی کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ ترکی میں آنے والے موجودہ شدید زلزلے کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی ممکنہ طور پر زمین کی فضا میں خلل ڈال سکتی ہے۔

زمین کے برقی مقناطیسی میدان خاص طور پر بیرونی آئنوسفیئرکی پرت میں آئینز کی سرگرمیوں میں اضافہ کرتی ہے اور یہاں تک کہ اس میں سوراخ کا سبب بن سکتی ہے۔ لہٰذا یہ بیک وقت اوزون کی کمی جیسی خطرناک صورت حال سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سونامی، سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور شدید موسمی حالات وغیرہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی برقی مقناطیسی لہریں کسی بھی علاقے میں تعینات فوجی دستوں کے دماغ کو متاثر کرتی ہیں ،جس سے ذہنی الجھن،کنفیوژن اور تناو ٔپیدا ہوتے ہیں اور وہ بروقت، درست اور مناسب فیصلے کرنے کی صلاحیت سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ 

ایک اور منفی اثر پرندوں اور جانوروں کے بایو سینسرز پر ہے جو خاص طور پر ان کی حرکات و سکنات کو درست سمت میں رکھتے ہیں، اور متاثر بھی کرتے ہیں اور ان کی حیات بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ ترکی میں اس غیر معمولی زلزلے کے بارے میں قیاس آرائیاں تقویت پکڑتی جا رہی ہیں کہ اسے قدرتی آفت کے بجائے ایک سوچی سمجھی انسانی یا تکنیکی آفت اور دہشت گردی قرار دیا جائے، کیوںکہ بہت سے سائنسدان اس پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

خاص کرترکی میں بہت سے لوگوں نے زلزلے سے پہلے آسمان پر بجلی کی ایک واضح جھلک دیکھی ہے ،جس کی کچھ ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں۔ زلزلے کے اوقات کار اور ملک و خطے کی جغرافیائی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، کیوںکہ ہالینڈکے کچھ تھنک ٹینکس نے 3 فروری 2023 سے خطے میں ان بڑے واقعات کی پیش گوئی کر رہے تھے اور ان کے مطابق اگلے مرحلے میں چین، پاکستان، ایران، افغانستان، نیپال بھی ان زلزلوں سے متاثر ہوسکتے ہیں اور یہ ایک پریشان کن معاملہ ہے۔ لہٰذا انہیں ہر طرح سے تیار رہنے کی تنبیہ کی جاتی ہے۔اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مذکورہ زلزلے نے خطے کے دیگر ممالک شام، اردن، لبنان، قبرص کو متاثر کیا جیسے کہ زلزلہ عام طورے پر ایک خطے کے کئی ہمسایہ ممالک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایک تکنیکی نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ زلزلوں کے آفٹر شاکس صرف انہیں فالٹ زون میں آتے ہیں جن فالٹ زونز میں پہلا زلزلہ آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر تمام آفٹر شاکس خطے کے نئے فالٹ زونز میں جا ری ہیں جو تکنیکی بنیادوں پرممکن نہیں ہوسکتے اور اس زلزلہ کو متنازعہ بناتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں تمام قدرتی آفات شدت، اور مدت کے لحاظ سے بڑھ رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر نہیں بلکہ موسم اورآب و ہوا کے کنٹرول یا تبدیلی کے ذریعہ رونما ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر 2010 میں ہیٹی کا زلزلہ، 2010 میں چلی کازلزلہ اور سونامی، 2011 میں جاپان کا زلزلہ اور سونامی، 2006 میں فلپائن میں بڑے پیمانے پر سونامی، 2010 اور 2023 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب بھی مشکوک اور متنازعہ ہو چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی دنیا کے کسی بھی خطے کے موسم ،آب و ہوا کو کنٹرول کرنے اور تبدیل کرنے کا ایک بہترین آلہ ہے، جس سے ممالک کی سیاسی،سماجی، اقتصادی اور جغرافیائی جہت کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ بڑے پیمانے پر تباہی کا زیادہ طاقتور ہتھیار (ڈبلیو ایم ڈی) ہوسکتا ہے۔یہ ففتھ جنریشن اور سائبر وار فیئر سے زیادہ مہلک ہے اور اس واقعے کی غیر جانبدار تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ مکمل تحقیقات کی جانی چاہیے اور اگر ایسا ثابت ہوتا ہے تو ہر سطح پر اس کی مذمت کی جانی چاہیے اور مستقبل میں ان کو روکا جانا چاہیے۔ دنیا اس ٹیکنالوجی کی دہشت گردی سے زیادہ غیر محفوظ ہو رہی ہے جب کہ یہ طاقت صرف ایک ہاتھ میں موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ کہیں بہت دیرنہ ہوجائے مساوات اور برابری کے ساتھ پائیدار امن و انسانی ترقی کے لیے تعاون و بقائے باہمی کے سنہری اصولوں کو فروغ دینانا گزیر ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید