قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین میر خان محمد جمالی عدم موجودگی میں ممبر کمیٹی ناز بلوچ کی زیر صدارت ہوا۔
اجلاس میں ناز بلوچ نے کہا کہ بڑے شہروں میں بھی موبائل فون سروس کے مسائل ہیں، موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موبائل فون کمپنیوں نے کال اور انٹرنیٹ کے ریٹس میں اضافہ کر دیا۔
ارکان کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں بھی انٹرنیٹ سروس نہیں آتی، کمپنیاں عوام کی جیب سے پیسے نکال رہی ہیں اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اٹھارٹی (پی ٹی اے) خاموش ہے۔
کمیٹی ارکان نے مزید کہا کہ موبائل سمز کے ذریعے ہزاروں فراڈ کیے جارہے ہیں۔
پی ٹی اے حکام نے اجلاس کو بتایا کہ جعلسازی میں ملوث 34 ہزار سمز کو بلاک کیا گیا ہے، کوالٹی سروس سے متعلق شکایات پر ایکشن لیا جاتا ہے۔
حکام نے مزید کہا کہ موبائل کمپنیاں اور بینک سمز کے ذریعے فراڈ پر آگاہی مہم چلاتے ہیں۔
اجلاس میں ٹیلی کام انڈسٹری نے اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ معاشی بحران میں موبائل فون کمپنیوں کے منافع کی شرح انتہائی کم ہوگئی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ بجلی کے نرخ بڑھنے سے مشکلات بڑھی ہیں، انڈسٹری تسلیم کرنے کے باوجود ٹیلی کام سیکٹر کو کمرشل ٹیرف چارج کیا جا رہا ہے، مشکل صورتحال میں فائیو جی کی لانچنگ ممکن نہیں ہو گی۔
ٹیلی کام انڈسٹری کی جانب سے ٹیلی کام کے نمائندے نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ موبائل فون کمپنیاں سالانہ منافع کا 1 اعشاریہ 5 فیصد یو ایس ایف کو دیتی ہیں۔
نمائندے نے مزید کہا کہ ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے ٹیلی کام آلات کی درآمد میں مشکلات ہیں مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت کو سفارشات دے دی ہیں۔
ممبر وزارت آئی ٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ فنانشل کرائمز کی وجہ غیر قانونی سمز ہیں، پی ٹی اے نے جعلی سمز کی روک تھام کے لیے لائیو بائیومیٹرک تصدیق کا عمل شروع کیا ہے۔
ڈمی فنگر پرنٹ سے اب سم ایکٹو نہیں ہو ں گی، انفرااسٹرکچر شیئرنگ اور اسپیکٹرم ری فارمنگ فریم ورک کو حتمی شکل دی جارہی ہے، جس سے ٹیلی کام کمپنیوں کی لاگت میں کمی آئے گی۔