”اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی سیاست کا درخت فوجی گملے میں پروان چڑھا۔ پھر جب فوجی ڈکٹیٹر نے ان کے سیاسی لیڈر محمد خان جونیجو کو رخصت کیا تو ان کے ایما پر انہوں نے ان کے ساتھ بے وفائی کی ۔ چند ہی سال بعد ایک اور فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں وہ اقتدار سے محروم ہوئے اور وہی کچھ ان کے ساتھ گجرات کے چوہدری برادران نے کیا جو انہوں نے محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح فوج کے اشارے پر میاں صاحب نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا اور ان پر ہندوستان کے ساتھ سازباز کا الزام لگا یا۔ تب ان کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ کبھی انہیں بھی سیکورٹی رسک قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اللہ کی قدرت دیکھ لیجئے کہ آج صرف چند سال بعد انہیں سیکورٹی رسک کا طعنہ ملنے لگاہے اور ان پر اسی طرح ہندوستان کے ساتھ سازباز کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جس طرح انہوں نے بے نظیر بھٹو پر لگائے تھے ۔
کیا کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ خالد خواجہ اور کرنل امام ان طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے جن کو وہ اپنا شاگرد قرار دے رہے تھے اور جن کے وہ ہمہ وقت گن گاتے رہتے تھے ۔ قاضی حسین احمد مرحوم کو اگریہ علم ہوتا کہ کسی دن میجر مست گل ،ان کے قتل کا منصوبہ بنائیں گے تو کیا وہ ان جیسے لوگوں کی سرپرستی کرتے؟( واضح رہے کہ مہمند ایجنسی میں قاضی حسین احمد کو مارنے کے لئے جو دھماکہ کیا گیا تھا، اس کا منصوبہ چرار شریف کے مبینہ ہیرو میجر مست گل نے بنایا تھا) ۔ اسی طرح کیا ہم کبھی یہ سوچ سکتے تھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ طالبان مولانافضل الرحمان اور مولانا غفور حیدری جیسے لوگوں کو مارنے کے لئے خودکش حملے کریں گے لیکن ایسا ہوا اور ہورہا ہے ۔ پرویز مشرف کو دیکھ لیجئے ۔ وہ بڑے غرور سے کہا کرتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے لئے پاکستان میں اب کوئی جگہ نہیں ۔انہیں اسی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ڈیل کرنا پڑی ، وہ نوازشریف آج وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے ہیں اور وہ پرویز مشرف آج پاکستان نہیں آسکتے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ صحافی جنہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بیساکھیوں کے سہارے صحافت کی اور جو ان کی ایما پر دوسروں کی عزتوں سے کھیلتے رہے ، آج سب سے زیادہ ان ایجنسیوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اوردوسری طرف وہ سب سے زیادہ ان ایجنسیوں پر انگلیاں اٹھا کر اپنے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ غرض جو جس انتہاپر گیا ، زمانے کے جبر نے اُسے اس کی مخالف سمت میں دوسری انتہاپر جانے پر مجبور کر دیا، جس نے دوسروں کے لئے جو گڑھا کھودا، کسی نہ کسی وقت خود انہیں یا ان کی اولاد کو یا پھر ان کے پیروکاروں کو ا س میں گرنا پڑا ۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ۔ یہ ماضیٔ بعید کی نہیں بلکہ ماضیٔ قریب کی تاریخ ہے اور یقین ہے کہ اب بھی ہم اس سے عبرت نہیں لیں گے لیکن مجھے تو ایمان کی حد تک مکافاتِ عمل کے قانون پر یقین ہوگیا ہے اور اسی یقین کی بنیاد پر چند پیشگوئیاں کررہا ہوں ۔میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کی عزت کےتابوت میں آخری کیل سوشل میڈیا ہی ٹھونکے گا ۔ ان کے ایک ایم این اے کے گھر والوں کو پڑنے والی گالیوں سے تو مکافاتِ عمل کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن یہ آغاز ہے انجام ہر گز نہیں ۔ مکافاتِ عمل کے اس اصول کے تحت مجھے مستقبل میں پی ٹی آئی کی قیادت کی عزتیں خطرے میں نظر آرہی ہیں ۔ یہ بات بھی اٹل ہے کہ ان پر غداری کے الزامات بھی لگیں گے اور انہیں بھی مختلف القابات سے نوازاجائے گا۔ اسی طرح مکافات عمل کے اصول کے تحت اس بات سے بھی مفر ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے لئے وبال جان بن جائے اور اس کا نوٹس اسٹیبلشمنٹ ہی لے۔ فوج کو گالی دینے کے جرم میں پی ٹی آئی کے بعض سوشل ایکٹوسٹ کی گرفتاریوں سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘۔
درج بالا الفاظ میرے اس کالم کے ہیں جو آج سے چھ سال قبل 27 مئی 2017کو روزنامہ جنگ میں ”مکافات عمل“ کے زیرعنوان شائع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بظاہر میاں نواز شریف اقتدار میں تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار تھے۔ تب وہ صرف فوج اور ایجنسیوں کے لاڈلے نہیں تھے بلکہ انہیں عدالتوں کا بھی لاڈلا بنا دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے میڈیا ونگ نے سوشل میڈیا اکائونٹس بنارکھے تھے اور سب مل کر ہم جیسے نقادوں کی کردار کشی کررہے تھے۔آج جو اینکرز، صحافی اور یوٹیوبرز جمہور کی بالادستی کے نعرے اور فوج کے خلاف فریادیں کررہے ہیں، ان سب کو بھی آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی نے اس کام پر لگا رکھا تھا کہ فوج کے سیاسی کردار پر یا لاڈلے عمران خان پر جائز تنقید کرنے والوں کو غدار اور غیرملکی ایجنٹ ثابت کرو۔ تب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا نشہ آسمان سے باتیں کررہا تھا کیونکہ پشت پر مقتدر قوتیں تھیں۔میں نجومی ہوں ،جادو ٹونے پر یقین رکھنے والا اور نہ مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے والا لیکن مکافاتِ عمل کے قانون پر یقین رکھنے والے ایک گناہگار کی حیثیت سے مجھے یقین تھا کہ ایک روز فوج پی ٹی آئی کیلئے اور پی ٹی آئی فوج کیلئے مصیبت بنے گی ۔ آج اللہ میری زندگی میں وہ دن لے آیا اور فوج کے لئے اپنی ہی تخلیق وبال جال بن گئی ہے ۔دوسری طرف عمران خان فوج کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔
لیکن گزرا ہوا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔دونوں کا مسئلہ اب بھی حل ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اعتراف جرم اور پھر توبہ کرلی جائے ۔ اعتراف جرم اور تلافی کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں کو چاہئے کہ وہ کھل کر اعتراف کریں کہ عمران خان کو لیڈر اور پھر وزیراعظم بنا کر انہوں نے غیرآئینی طور پر فلاں فلاں وقت میں فلاں فلاں طریقے سے یہ یہ غلط کام کئے اور دوسروں کو ذلیل کروایا۔ اسی طرح عمران خان اور ان کے ساتھی کھل کریہ اعتراف کریں کہ فلاں فلاں وقت میں اس طریقے سے فوج کا مہرہ بن کر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کا کردار ادا کیا اور فلاں فلاں کی بے عزتی کی ۔یہی کام تازہ تازہ انقلابی بن جانے والے میڈیا پرسنز کو بھی کرنا ہوگا اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا ہوگا کہ فوج، ایجنسیوں اور عمران خان کے کہنے پر کن کن جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ شاید اس صورت میں توبہ قبول ہوجائے اور اللہ سب کو اس حالت سے نکالنے کا کوئی راستہ نکالے اور ہاں ساتھ ہی ساتھ دونوں کو اللہ اور قوم کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرنا ہوگا کہ آئندہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔