• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں آپ نے بڑی بڑی سازشی تھیوریز سنی ہوں گی۔ چاند پہ تو ہوا ہی نہیں، امریکی جھنڈا لہرا کیوں رہا تھا۔ جہاز ٹکرانے سے یوں عمارت منہدم ہو ہی نہیں سکتی کہ سٹیل کے پگھلنے کے لئے 1510ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ جو لوگ دو جہاز اغوا کر کے عمارتوں سے ٹکرا سکتے ہیں، انہیں اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ سٹیل کے درجہ حرارت پر سوال اٹھے گا؟ امریکی چاند پہ جھنڈا گاڑنے کی ’’جھوٹی‘‘ ویڈیو بنا کر عالمی طاقت سویت یونین اور دنیا بھر کے سائنسدانوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ چاند پہ ہوا نہ ہونے کا سوال اٹھے گا؟ دوسرا سوال:سویت یونین نے کبھی باضابطہ طور پر یہ موقف کیوں نہ اپنایا کہ امریکی چاند پہ نہیں اترے بلکہ انہوں نے انسانیت کو دھوکہ دیا ہے۔جو لوگ ایسی عبارتیں پڑھتے ہیں، ان کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ ان اعتراضات کی صحت پر غور کر سکیں۔ وہ شیئرکا بٹن دباتے ہیں۔ سازشی تھیوری ایک سے دوسرے کو منتقل ہو جاتی ہے۔ شیئرکا یہ جو بٹن فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر نے ایجاد کیا ہے، اس سے علم پھیلے نہ پھیلے، سازشی تصورات بہت تیزی سےپھیلتے ہیں۔ ایک دفعہ دفاع پر لکھنے والے ایک بلاگر نے پاکستانی میزائل شاہین تھری کی رینج تین گنا بیان کی تھی اور پوسٹ خاصی وائرل ہوئی تھی۔ ان باکس میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: یہ ڈس انفرمیشن کی جنگ ہے۔ جن سے ہم لڑ رہے ہیں، وہ کون سا سچ ملحوظ رکھے ہوئے ہیں۔

آج کا سوشل میڈیا ڈس انفرمیشن کی ایک جنگ ہے۔ یہ اس دور کا سب سے بڑا سچ ہے۔ ہمیں دن رات سوشل میڈیا پیغامات اور پوسٹس کی صورت میں جو مواد بھیجا جاتاہے، ہم اس کی صحت پرکھنے کی تکنیکی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس اس کے لئے درکار ڈگری ہی نہیں۔ جو بات دل کو بھائے، وہ دھڑا دھڑ شیئر ہو رہی ہے۔ کورونا کی وبا پھوٹی تو سازشی تھیوریز کی بہار آگئی۔ اقوامِ متحدہ میں سابق پاکستانی مندوب عبداللہ حسین ہارون نے کہا:وائرس لیبارٹری میں ایجاد ہوا۔ اسے امریکہ میں باقاعدہ پیٹنٹ کرایا گیا۔ ویکسین اسرائیل میں تیار کی جا رہی ہے اور صرف ان ممالک کو دی جائے گی جو اسرائیل کو تسلیم کریں گے۔ انسان جب اپنے شعبے سے باہر نکل کر دوسرے شعبے میں ماہرانہ رائے دینے کی کوشش کرتا ہے تو ایسے ہی لطائف سننے کو ملتے ہیں۔ جنہوں نے ایک نیا وائرس ایجاد کر کے عالمی سازش کرنا تھی، انہوں نے احتیاطاً اپنا وائرس پیٹنٹ کروا لیا کہ کوئی اور نہ چوری کر لے۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل اگر ایسا کارنامہ کرے تو چین، جاپان، روس اور دنیا کے دوسرے طاقتور ممالک اس کا ٹینٹوا نہ دبا دیں۔ ہم آرام سکون سے بیٹھے تھے، تم نے ہمارے اوپر وائرس چھوڑ دیا۔

ادھر دوسری طرف والے سازشی تھیورسٹس کا کہنا تھا کہ وائرس چین نے ایجاد کر کے انسانیت کے سر پہ پھوڑا۔ ادھر تیسری طرف طبیب بڑی پھرتی کے ساتھ باہر آئے اور کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کیا؛ حالانکہ سو میں سے اٹھانوے از خود صحت یاب ہو رہے تھے۔ ہمیں بھی ایک فون آیا:بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے میں نے کورونا کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی بھی میرا ہی آئیڈیا چوری کر کے بھاگے تھے۔ ملاقات ہوئی تو فرمایا:کینسر کی آخری اسٹیج پہ کھڑی ہوئی خاتون کو تین دن میں، میں نے صحت یاب کر دیا۔ میں نے ان کا فیس بک پیج کھولا تو فروزن شولڈر کا علاج ٹانگوں کی ورزش سے کروا رہے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا پیدا ہونا ہی انسانیت پہ بہت بڑا احسان تھا۔ باہر نکلے تو والد صاحب نے پوچھا: تمہاری کیا رائے ہے۔ میں نے کہا:بہت بڑا کذاب ہے یہ شخص۔ انہی دنوں ڈاکٹر چغتائی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو نوٹ کیا کہ وہ کوئی حتمی رائے نہ دے رہے تھے؛ حالانکہ ان کی تو یہ فیلڈ تھی۔ وجہ یہ تھی کہ انسان کے پاس اس کے بارے میں ابھی کوئی ڈیٹا موجود ہی نہ تھا۔ کوالیفائیڈ لوگ کبھی اُوٹ پٹانگ دعوے نہیں کرتے۔ اگر وہ چاہتے توکورونا کے پسِ منظر میں دن رات ٹی وی اسکرین پہ جلوہ گر ہو سکتے تھے۔

سازشی تھیوریز کو مسترد کردینے کے رجحان کے باوجود، ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ ساٹھ سال میں اس ملک کے قرضے چھ ہزار ارب روپے اور ڈالر ساٹھ روپے کا تھا۔کم و بیش یہی سیاسی اشرافیہ معاملات چلا رہی تھی۔ 2007ء سے 2023ء کے پندرہ برس میں آخر ایسا کیا ہوا کہ قرض پچاس ہزار ارب اور ڈالر ڈھائی سو کو جا پہنچا۔ ملک تقریباً ڈیفالٹ ہی ہو گیا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ دو عوامل پاکستان کی حفاظت کے ضامن ہیں۔ ایک اس کا ایٹمی پروگرام، دوسری افواجِ پاکستان۔ پاکستان دہشت گردی کی بدترین جنگ سے نکلا تو اسی فوج کی بدولت؛ حالانکہ دنیا کی کوئی اور قوم خودکش حملوں والی جنگ میں دھنسی تو باہر نہ نکل سکی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک منصوبے کے تحت پاکستان کو دیوالیہ کیا گیا۔ابھی کل تک یہ صورتِ حال تھی کہ لوگ گاڑیوں پہ جنرل راحیل شریف کی تصاویر آویزاں کر رہے تھے۔ یکایک یہ کیا ہوا۔ اس رفتار سے تو جہاز کریش نہیں ہوتا۔ خان صاحب برسرِ اقتدار تھے تو کافی عرصے تک شریف حکومت کے سکینڈل ڈھونڈتے رہے۔ اب یہی کام پی ڈی ایم والے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کرنا چاہتے ہیں۔ جہاز ڈوب رہا ہے۔ مسافر چھید بند کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے گتھم گتھا ہیں۔

تازہ ترین