• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر 44ویں سماعت

سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر 44ویں سماعت ہوئی۔

سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی، اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ خود قانون بنانے والے سابق وزیراعظم کی درخواست کو عدالت نے تسلیم کیا ہے، یہ تو نئی تاریخ رقم ہوجائے گی۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت متعدد بار نیب قانون میں شفافیت لانے کا کہہ چکی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ کبھی کبھی جو عدالت میں کہوں اُس کا وقت مطلب نہیں ہوتا جو سمجھا جاتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ کرپشن سے تفریق پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں ناانصافی بڑھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تجویز عدالتی تحمل کی دی جاتی ہے، اس کے باوجود ہمیں حلف کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔

اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم سے اسرائیل یا امریکا جیسے حالات بنتے ہیں، امریکا میں 2 بڑی سیاسی جماعتیں عدالتوں کو کنٹرول کرنے کےلیے لڑ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی کی تجویز کردہ ترامیم میں کچھ اضافہ کیا ہے، جس سے نیب اختیارات میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان نے درخواست میں مفروضوں پر مبنی باتیں کی ہیں، تحریک انصاف نے 2019 میں خود ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میرے خیال میں 2019 کی ایمنسٹی اسکیم کامیاب رہی، جس سے کافی لوگ مستفید ہوئے۔

اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آئندہ ایمنسٹی اسکیم کوئی نہیں لے گا کیونکہ بعد میں نیب کارروائی کا آغاز کردیتا ہے، عمران خان نے اپنی کابینہ کے ممبران کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا تھا۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے کہا تھا کہ منی لانڈرنگ کے معاملات نیب دیکھے؟

وفاقی حکومت نے وکیل نے جواب دیا کہ فیٹف نے کچھ ایسا نہیں کہا، درخواست گزارنے اپنی طرف سے یہ باتیں لکھ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے درخواست گزار کی خامیوں سمیت غلطیوں کو بھی اجاگر کیا ہے، حکومت نے نیب قانون کو وسعت دی، جس کو درخواست گزارنے نہیں سراہا۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنا کس کا اختیار ہے؟ اس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جعلی اکاؤنٹس کی نوعیت دیکھ کر نیب بھی تحقیقات کرسکتا ہے۔

دوران سماعت عمران خان کی طرف سے معاون وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ معطلی کےلیے ہائی کورٹ میں مصروف ہیں۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم دوسری جانب کے دلائل سن رہے ہیں۔

عدالت نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت 16 مارچ تک ملتوی کردیں۔

قومی خبریں سے مزید