• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں بالعموم اور مسلم لیگ ن بالخصوص الیکشن سے خوفزدہ ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ عمران خان سے الیکشن نہیں جیت سکتے۔ 

پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام کو تو پھر بھی امید ہے کہ اس وقت اُن کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں ہیں (یا تحلیل شدہ پنجاب اور خیبرپختون خوا اسمبلیوں میں تھیں)، اتنی تو وہ کم از کم آئندہ انتخابات میں حاصل کرلیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوجائے۔ لیکن ن لیگ کا بُرا حال ہے۔ 

لیگی رہنما کہتے تو ہیں کہ وہ الیکشن کے لئے تیار ہیں لیکن اُن کی پوری کوشش ہے کہ نہ صرف پنجاب اور خیبرپختون خوا میں الیکشن نہ ہوں بلکہ موجودہ قومی اسمبلی کے مدت پوری ہونے پر بھی وہ اکتوبر میں انتخابات کے نام سے خوفزدہ ہیں۔ 

مریم نواز کی لندن سے واپسی پر ن لیگ کو سیاسی طور پر فعال کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس سے بھی اب تک کچھ حاصل نہیں ہورہا۔ عمران خان پر نئے نئے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ اور ن لیگ نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔ 

ایسا نہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کوئی بڑا کمال کیا یا اُن کی اپوزیشن کی سیاست بہت زبردست ہے۔ مسئلہ اتحادی حکومت کی ناکامیوں کا ہے۔ معیشت سنبھل نہیں رہی جب کہ مہنگائی ہے کہ آسمان کو چھو رہی ہے۔ غربت میں اضافہ ہو گیا ہے جب کہ تقریبا ہر قسم کے کاروبار کو تباہی کا سامنا ہے جس سے لاکھوں افراد ملازمتوں سے فارغ ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

پی ڈی ایم نے بڑے شوق سے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا تھا اور ن لیگ بھی بڑی پر جوش تھی کہ ہم معیشت کو سنبھال لیں گے لیکن اب ہاتھ مل رہے ہیں کہ ہم سے یہ کیا ہوگیا، ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ حالات اتنے خراب ہوجائیں گے کہ ناک رگڑ رگڑ کر بھی نہ آئی ایم ایف قرضہ دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی دوست ممالک کی طرف سے وہ امداد مل رہی ہے جس کی بڑی امیدیں تھی۔ 

ن لیگی کہتے تھے کہ ہمارے پاس تو بڑے تجربہ کار لوگ ہیں، ہم معاملات ٹھیک کر لیں گے لیکن اب رو رہے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ لندن میں نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ عوام کو بتایا جائے کہ نواز شریف اور عمران خان کے دور میں کیا فرق تھا اور اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کا سارا ملبہ عمران خان اور اُن کی حکومت پر ڈالا جائے۔ 

بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی حاصل کچھ نہ ہوا کیوںکہ شہباز شریف حکومت کے گزشتہ دس گیارہ مہینوں کے دوران نہ صرف ملکی معیشت مزید خراب ہوئی، کاروبارتباہ ہو گئے اور مہنگائی نے تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

کوئی معجزہ ہوجائے تو الگ بات ہے ورنہ ن لیگ کے لئے حالات کے سنورنے کا کوئی چانس نہیں۔ الیکشن سے بھاگ کر بھی جان نہیں چھوٹنی۔ کتنا عرصہ بھاگیں گے۔ ترازو کے دونوں پلڑوں کی برابری کی بات کرنے والی ن لیگ کی خواہش اب یہ ہے کہ عدلیہ نوازشریف کے نہ صرف مقدمات ختم کر کے اُنہیں باعزت بری کرے بلکہ عمران خان کو نااہل قرار دیتے ہوئے سیاست سے باہر کر دے۔ اس سے ترازو کے دونوں پلڑے کیسے برابر ہوں گے؟ یہ نکتہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ 

لگ ایسا رہا ہے ن لیگ چاہتی ہے کہ 2018 کے حالات کو 2023میں Repeat کیا جائے اور وہ ایسے کہ اگر 2018 میں انتخابات کو عمران خان کے حق اور نواز شریف اور ن لیگ کے خلاف Manage کیا گیا تھا تو اب کی بار سیاسی حالات اور انتخابات کو ن لیگ کے حق میں اور عمران خان کے خلاف Manage کیا جائے۔ 

کیا آج کے پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ اس کا تو وقت ہی فیصلہ کرے گا لیکن میری رائے میں جو غلطی عمران خان کی حکومت ختم کرکے ن لیگ اور اس کے اتحادیوں نے کی، اُس کا خمیازہ ان سیاسی جماعتوں اور بالخصوص ن لیگ کو بھگتنا پڑے گا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین