سعادت حسن منٹو کا ایک افسانہ ’’شہید ساز‘‘ زلزلے کی تباہ کاریاں سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ایک کاٹھیاواڑی دکاندار تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد پاکستان کاروبار کی تلاش میں آیا اور دیکھتے دیکھتے الاٹمنٹوں کے کاروبار سے لاکھوں میں کھیلنے لگا۔ ایک دن اسے اخبار کی خبر سے معلوم ہوا کہ ایک جلسے میں بھگدڑ سے تیس آدمی شہید ہوگئے، مزید دریافت پر معلوم ہوا کہ کسی حادثے میں بے گناہ مرنے والوں کو شہید کہا جاتا ہے، جن کا رُتبہ بہت بلند ہے۔
اب اسے ایک ہی دھن تھی کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ غریب بیمار اور لاچار لوگوں کو بے فائدہ مرنے کے بجائے شہید کے رُتبے تک پہنچایا جائے،جو بہترین طریقہ اس کی سمجھ میں آیا وہ یہ کہ وہ ایک بلڈنگ کا ٹھیکہ لے جس کی آدھی رقم پہلے ہی جیب میں ڈال لے ،بقیہ آدھی سے ایسی عمارت بنانا شروع کرے جو تیسرے دن ہی گر جائے اور کم از کم تین سو مزدور اس میں دب کر شہادت کا درجہ پائیں‘‘۔
یہ منٹو کا ذہن تھا جس نے تیسری دنیا کے ملکوں کی کیسی درست تشریح کی۔
زمین کی قدرتی حرکت سے جب زمین ہلنے لگتی ہے تو اسے زلزلہ کہتے ہیں۔ لیکن زمین کے ہلنے سے کوئی نہیں مرتا۔ زمین کی حرکت سے عمارتیں ہلنے لگتی ہیں اور اکثر گر پڑتی ہیں یا ان کی چھت بیٹھ جاتی ہے جس کے ملبے تلے دبنے سے انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ اگر یہ بات ہمارے عوام اور رپورٹروں کی سمجھ میں آجائے تو یہ خبر کبھی نہ لگے کہ فلاں مقام پر زلزلے سے اتنے ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے،بلکہ یہ خبر یوں ہونا چاہئے کہ ،فلاں مقام پر زلزلے سے ناقص عمارتوں کے ڈھے جانے سے اتنے افراد جاں بحق ہوئے۔
کشمیر کا 2005ء کا زلزلہ کی بھی یہی مثال ہے۔ اس میں 80 ہزار افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جس میں چالیس ہزار اسکولوں کے بچے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں اسکول کے بچوں کی اموات کی وجہ بالکل واضح ہے۔ آٹھ اکتوبر کی صبح ساڑھے آٹھ بجے آزاد کشمیر کے ہر شہر کے اسکول کے کمرے بچوں سے بھرے تھے۔
زمین کی حرکت شروع ہوتے ہی اسکولوں کی چھتیں اپنی ہی دیواروں پر بیٹھ گئیں کیونکہ ٹھیکیداروں نے نہ چھت میں لوہے کے سریے انجینئرنگ کے اصولوں کے مطابق ڈالے تھے نہ ستونوں کے اندر صحیح مقدار میں سرمایہ تھا نہ ستونوں کے سریوں کو چھت کی بیم کے سریئے سے باندھا گیا تھا۔ زمینی حرکت کے باعث ستون الگ اُوندھے ہوئے،بیم دو ٹکڑے،چھت زمین بوس، چالیس ہزار روشن چہرے چشم زدن میں تاریک ہوگئے اور اپنے والدین کی زندگی تاریک کرگئے۔
مظفرآباد، راولاکوٹ اور باغ میں گری ہوئی عمارتوں اورکچے مکان کے ڈھیر میں کچھ بلڈنگیں اور مکان کھڑے بھی رہ گئے تھے، یہ وہی تھے جن میں بہتر میٹریل اور اچھے راج مزدوروں نے جن کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ اب اگر اموات کا انحصار اچھی یا نا قص تعمیر پر ہوتا ہے۔ اب اچھی تعمیر کیا ہے اور ناقص تعمیرات کسے کہتے ہیں، اس علم کی ضرورت پاکستان، ایران اور ترکی کی اقوام کو اس لئے بہت زیادہ ہے کہ یہ تینوں ممالک زلزلے کی ایک ہی پٹی پر واقع ہیں، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تین ملک زلزلے کی زنجیر سے بندھے ہیں۔
آپ نے کبھی غورکیا ہے کہ زلزلے انہی ممالک میں آتے ہیں جہاں وہ پہلے بھی آچکے ہیں۔ انڈونیشیا، چین اور جاپان سے آپ وقتاً فوقتاً زلزلے کی خبریں سنتے ہیں، کیونکہ یہ ممالک زلزلے کی تین بڑی پٹیوں میں ایک پر واقع ہیں ،دوسری پٹی پر جنوبی امریکہ کے ممالک چلی، پیرو اور شمالی امریکی ریاست کیلی فورنیا زلزلے کے جھٹکوں سے جھولتی رہتی ہیں۔ تیسری پٹی ہماری ہے اور سب سے زیادہ خطرناک یہ برما ،آسام سے شروع ہوتی ہے اور کشمیر سے ہوتی ہوئی افغانستان، ایران، ترکی، یوگوسلاویہ سے اٹلی اور فرانس تک جا پہنچتی ہے۔ دراصل یہ زلزلے، ہمالیہ اور آپس (ALPS)کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع تمام خطوں کو زمینی حرکات کے جھٹکوں سے متاثر کرتے رہتے ہیں۔
اب ہم واپس چلتے ہیں ’’شہید ساز ٹھیکیداروں‘‘ کی طرف۔ ترکی کا شہر انطاکیہ اقوام متحدہ کے ایک اہم عہدیدار کے مطابق تقریباً ویران ہو چکا ہے۔ گھروں، اسکولوں، دکانیں، بلڈنگیں سب جزوی طور پر مکمل ڈھے چکی ہیں، زندگی بکھر گئی ہے۔ ترکی اور شام کے شہروں میں ناقابل بیان تباہی کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اموات پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں اور اندازاً ایک کروڑ 8لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
یہ تو زلزلے کا نوحہ ہے اور ہمارے جیسے ملکوں میں زلزلے کو قدرتی آفت قرار دےکر سر جھٹک دیا جاتا ہے اور قصہ ختم۔ لیکن ترکی کے شہر انطاکیہ سے ایک ایسی خبر بھی ئای ہے جو امت مسلمہ کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ہے۔ خبر میں ترکی کے وزیر انصاف باقر بزداغ کے مطابق، ایک لاکھ ساٹھ ہزار بلڈنگیں جن میں پانچ لاکھ تیس ہزار فلیٹ تھے، زمین بوس اس لئے ہوگئے کہ ان میں کرپشن ہوئی تھی، اب تک مشتبہ چھ سو افراد کی انکوائری ہو چکی ہے،ان میں سے 184لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے،جن میں89 تعمیراتی ٹھیکیدار،74 بلڈنگ کنٹرول ادارے کے افسران،13 بلڈرزاور اٹھارہ ایسے انجینئر اورآرکیٹکٹ ہیں جنہوں نے مذکورہ بلڈنگوں میں تبدیلیوں کی منظوری دی تھی جو ان کے ڈھے جانے کا سبب بنی۔
ایسے ممالک یا شہر جن میں زلزلے کے خدشات بہت واضح ہوتے ہیں، ان میں ہمارا شہر کراچی بھی شامل ہے،جوکئی چھوٹے اور درمیانے درجے کے زلزلے جھیل چکا ہے اور قدرے بڑے زلزلے کا ہمہ وقت خطرہ ہے،وہاں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایک بلڈنگ کوڈ یعنی تعمیراتی قواعد وضوابط کا اجراء کرتی ہے،جس سے شہر میں جتنے بڑے زلزلے کا امکان ہے وہاں اتنے ہی سخت ضوابط ہوتے ہیں۔
لاہور یا ملتان کا بلڈنگ کوڈ نسبتاً نرم ہوگا کیونکہ یہاں زلزلے کا امکان بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اسلام آباد، پشاور، خضدار اور کراچی کا قدرے سخت جہاں درمیانے درجے کے زلزلے آچکے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے، جب کہ کوئٹہ کشمیر کا بلڈنگ کوڈ تعمیراتی کمپنیوں، بلڈرز اور ٹھیکیداروں سے سخت ضوابط کی پابندی کرائے گا، کیونکہ کویٹے میں 1935ء میں 7'6کا زلزلہ، جب کہ کشمیر، بالاکوٹ اور مالاکنڈ میں اس سے بھی بڑا زلزلہ 2005ء میں آچکا ہے۔
بلڈنگ کوڈ ہر فرد کو جو مکان تعمیر کرنا چاہتا ہے یا بلڈرز اور ٹھیکیداروں کے بنائے ہوئے اپارٹمنٹ خریدنا چاہتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ کس سائز کی عمارت میں کتنے سریے ستون میں، بیم میں چھتوں میں اور بنیادوں میں ڈالے جانے چاہئیں۔ ان سریوں کی موٹائی کیسی ہو اور انہیں کس ہنر مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ لوہے کے تاروں سے باندھا جائے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے کھلنے نہ پائیں۔ یہ کوڈ یہ بھی بتاتا ہے ،عمارت کے کس جزو میں سیمنٹ اور ریت کا تناسب کیا ہو اور کنکریٹ کی مضبوطی کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا اور اس پر پانی کا چھڑکائو کیسے جاری رکھنا ہے۔
ان قواعد وضوابط میں لکڑی اور شیشے کے استعمال کی صراحت بھی موجود ہے۔ تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے بتانا یہ مقصود ہے کہ جو عمارت اپنے شہر کے دیئے گئے ضوابط کے مطابق ہوگی وہ زلزلے کی مزاحمت کرے گی او (Earthguake Reistant) بلڈنگ کہلائے گی۔ اسے زلزلہ پروف کہنا غلط ہوگا کیونکہ یہ ضوابط متوقع زلزلے کی شدت سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں، جیسے کراچی کا بلڈنگ کوڈ 7.5 کے زلزلے کو سہارنے کیلئے بنایا گیا ہے،اگر اس سے بڑا زلزلہ آجائے تو نقصان تو ہوگا لیکن بلڈنگ بڑی تباہی سے بچ جائے گی۔
زلزلے کے سدباب یا اس سے بچاؤ کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کن اسباب کی بنا پر آتے ہیں۔
قدیم ہندوستان کے پنڈتوں کا خیال تھا کہ زمین گائے کے ایک سینگ پر قائم ہے،جب گائے تھک جاتی ہے تو وہ اس کرّے کو دوسری سینگ پر کھڑا کر لیتی ہے اور ایک بھونچال آجاتا ہے۔ چینی علماء سمجھتے تھے کہ زمین ایک اژدھے کے پھن پر ٹکی ہوئی ہے،جب وہ پھنکارتا ہے تو زمین ڈولنے لگتی ہے۔ لیکن اب ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ زمین کی اوپری پرت کئی بڑے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہے جو مسلسل حرکت میں ہیں۔ ان زمینی ٹکڑوں کو جو براعظموں سے بھی بڑے سائز کے ہیں پلیٹیں (Tectonic Plates)کہتے ہیں اور ان کے ٹکرانے سے جو جھٹکے لگتے ہیں وہ بھونچال کا سبب ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ جو خطے پلیٹ کے کناروں پر ہوں گے وہ جھٹکوں سے تباہ ہو سکتے ہیں، جب کہ پلیٹ کے بیچوں بیچ واقع ممالک محفوظ رہیں گے، یہی سبب ہے جو زلزلے کی پلیٹوں کو وجود میں لاتا ہے۔ ایشیائی پلیٹ اور یورپی پلیٹ کے ٹکرانے سے عظیم ہمالیائی سلسلے وجود میں آئے، یہی ٹکرائو آسام سے انطاکیہ تک زلزلے کا سبب بھی ہے۔
زلزلے کا سبب تو زمین میں پڑی دراڑیں اور ان پر پلیٹوں کی حرکت ہے لیکن املاک کا نقصان اور جانوں کا اتلاف قدرتی حرکت کے باعث نہیں بلکہ کچے پکے مکانات اورغیر قانونی بلڈنگوں یا پیسے کھلا کر قانون کو توڑ مروڑ کر بلڈنگیں بنانے کے باعث ہوتا ہے۔ یہ ہماری غیر اخلاقی روش ہے کہ ہم 60گز کے پلاٹ پر چار مزلہ عمارت کھڑی کر دیتے ہیں۔
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اکثر افسران ایسے ہیں جنہیں رشوت میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور وہ اسے حق محنت کہہ کر ٹرنکوں میں ڈالر بھر لیتے ہیں اور جب اتفاقاً انکوائری ہو جائے تو مفرور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے انجینئر اور آرکیٹیکٹ جو بلڈرز کی ایماء پر تمام سائنسی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے اور ہر منافع بخش تبدیلی پر صادر کر دیتے ہیں۔ ٹھیکیداروں کا ذکر کیا کریں ان کی اخلاقیات تقریباً وہی ہیں جو منٹو کے شہید ساز کی ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ منٹو نے جس کا ٹھیاواڑی کاروباری کا ذکر کیا ہے، اس کے پچاس سال بعد ہندوستان کے یوم جمہوریہ یعنی 26 جنوری 2001ء کے دن اسی کاٹھیاواڑ اورگجرات میں 7.6کی شدت کازلزلہ آیا جس میں سرکاری طور پر تیس ہزار افراد کی ہلاکت بتائی گئی، مگر اندازہ ایک لاکھ جانوں کا تھا، اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہاکہ، ہم شاید کبھی نہ جان سکیں گےکہ اس زلزلے میں ہم نے کتنی جانیں کھوئیں۔
زلزلے کا مرکز بھوج کے شہرکے پاس تھا لیکن تین سومیل مشرق میں واقع احمد آباد کا آدھا شہر تباہ ہو گیا، یہ نئی تعمیرات والا شہرتھا ، جبکہ پرانا شہر محفوظ رہا جو ایک منزلہ اینٹوں کے بنے مکانات اور حویلیوں پرمشتمل تھا۔جہاں اپارٹمنٹ بلڈنگ ہوگی وہاں ٹھیکیدار ہوگا۔ وہ احمد آباد کا ہو یا مظفر آباد کے اسکولوں کا یا انطاکیہ کی اپارٹمنٹ بلڈنگز کا ،جب تک اسے قانون کے کٹہرے میں نہیں لائیں گے زلزلے سے ہزاروں اور لاکھوں اموات ہوتی رہیں گی۔
جنوبی امریکہ کا ملک چلی وین کی شکل کا ایک منفرد ملک ہے،اس کی چوڑائی صرف 61 میل ،جب کہ لمبائی چار ہزار میل سے زیادہ ہے، یہ تانبے کی کان کنی کیلئے مشہور ہے ۔ ریکوڈک کے تانبے اور سونے کو نکالنے کیلئے چلی کی کمپنی انتافوگستا نے کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی کے ساتھ مل کر حکومت بلوچستان سے درخواست کی، کیونکہ یہ دریافت انہی دونوں کمپنیوں کی تھی، اسے حکومت بلوچستان نے مسترد کردیا تھا، پھرچیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت نے انکار کر دیا۔
یہ دونوں کمپنیاں عالمی عدالت انصاف میں چلی گئیں ،جس نے پاکستانی عدالت کے غلط اقدام پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کردیا،خیرطویل مذاکرات کے بعد چلی کی کمپنی نے بیرک گولڈ کو اپنا حصہ بیچ دیا اور اب بیرک گولڈ ایک نئے معاہدے کے تحت ریکوڈک میں کام کا آغاز کر رہی ہے۔ چلی کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں یہ ہمارے ہی جیسا ملک ہے یہاں برسہا برس ڈکٹیٹروں کی حکومت رہی ہے۔ 1960ء میں اس ملک میں دنیا کا سب سے بڑا زلزلہ 9.5کی شدت کا آیا ،جس میں ہزاروں اموات ہوئیں۔ لیکن انہوں نے ہوش کے ناخن لئے اور بلڈنگ کوڈ متعارف کرائے،ان پر سختی سے عملدرآمد کرایا کہ جب 2010ء میں 8.5کا زلزلہ آیا تو بلڈنگوں میں زلزلے کی اتنی مزاحمت تھی کہ صرف تین سو افراد جان سے گئے۔
ترکی ہمیشہ سے زلزلوں کا گھر رہا ہے1999ء کا ازمیر کا زلزلہ ہماری یادداشت میں ابھی تازہ ہے اور اس جیسے تاریخ میں کئی زلزلے ہیں۔ لیکن ترکی خاموش نہیں بیٹھا ،نہ قدرتی آفت کہا، نہ اسے آزمائش یا عذاب سے تعبیر کیا،بلکہ پہلا کام یہ کیا کہ ہر علاقے کے لئے زلزلے کے خدشات کے حسابوں سے بلڈنگ کوڈ بنائے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ ایسے ڈیزائن پبلک میں عام کئے جو کم لاگت ہونے کے باوجود زلزلوں کی راہ میں مزاحم ہوتے تھے۔ تیسرا قدم یہ اٹھایا کہ انطاکیہ کی منہدم عمارتوں کے کوائف جمع کئے، ان کے بلڈرز، انجینئرز اور کنٹریکٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کیا،ان کے بلڈنگ پلان کو دیکھا کہ کہاں کہاں خرابیاں تھیں جس کے سبب یہ بلڈنگ گری۔ انکوائری ہوئی، گرفتاریاں ہوئیں اور باقر بزداغ انہیں اس سزا کے بغیر نہیں چھوڑ یں گے جس کے یہ مستحق ہیں۔ باقر ایک کرد رہنما ہیں ،جنہوں نے اسلامی اور عیسائی مذہبیات میں تونیہ کی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں،وہ 2011ء سے طیب اردگان کی کابینہ میں شامل ہیں، ڈپٹی پرائم منسٹر کے عہدے پر بھی کام کیا، اس وقت وزیرانصاف ہیں۔
زلزلے کی پیمائش کیلئے دو پیمانے رائج ہیں۔ ایک امریکی ماہر طبیعات ریکٹر کے نام پر ریکٹر (Richter) اسکیل کہلاتا ہے۔ یہ زلزلے کے سائز یعنی اس کے حجم کو ناپتا ہے کہ زلزلہ کتنا بڑا تھا، چٹانوں کے چٹخنے سے کتنی توانائی خارج ہوئی،اس توانائی کو ایک سے دس تک پیمانے پر درج کیا جاتا ہے۔ ریکٹر اسکیل کا ہر عدد اپنے پچھلے عدد سے تیس گنا بڑے زلزلے کو ظاہر کرتا ہے یعنی چھ کا زلزلہ پانچ کے زلزلے سے تیس گنا بڑا ہے اور ریکٹر پر سات کا عدد پانچ کے زلزلے سے نو سو گنا بڑا ہے یعنی 30x30 اس کا ہر اعشاریہ تین گنے کو ظاہرکرتا ہے۔ 7.5کے زلزلے سے 7.6کا زلزلہ تین گنا بڑا ہے۔ یہ حساب وہ لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو شطرنج کی ایجاد کی کہانی سے واقف ہیں۔
زلزلے ناپنے کا دوسرا پیمانہ اٹلی کے سائنسدان مرکالی )(Mercalliکے نام سے موسوم ہے۔ یہ پیمانہ شہر کی تباہی اور عمارتوں کے گرنے سے متعلق ہے اور ایک سے بارہ تک ہے،جس میں ایک سے مراد صرف عمارتوں میں معمولی کریک اور 12کا مطلب شہر کا مکمل کھنڈر ہو جانا اور ہر طرف ویرانی۔ انطاکیہ کا 6 فروری کا زلزلہ ریکٹر اسکیل پر 7.8اور مرکالی اسکیل پر گیارہ کے درجے کا تھا یعنی مکمل تباہی سے ایک درجے کم، بعض زلزلے بہت زیادہ توانائی خارج کرتے ہیں کیونکہ چٹانوں کی دراڑ بڑی لمبی اور اس پر طویل حرکت لیکن نقصانات اور بربادی بہت کم ہوتی ہے۔
جیسے غیرآباد ریگستانوں یا اجاڑ میدانوں میں بڑا زلزلہ بھی آئے تو وہاں دُور دُور نہ بلڈنگیں ہیں نہ آبادی، چند خیمے اور گنتی کے درخت ،اس کے مقابلے میں کم طاقت کا زلزلہ بڑی تباہی لاسکتا ہے۔ اگر گنجان آباد اور کچے مکان یا ناقص اپارٹمنٹ بلڈنگز ہوں۔ ہیٹی میں 2010ء میں جو زلزلہ آیا، وہ ریکٹر اسکیل پر 7.0کا تھا یعنی کشمیر اور ترکی کے حالیہ زلزلے سے ایک تہائی سے بھی کم طاقت کا لیکن سوا دو لاکھ افراد لقمہ اجل بنے، وجہ انتہائی گنجان آبادی، کچے پکے مکانات اور وہاں کی زمین چکنی مٹی کی تھی،جس میں ایسی پھسلن تھی کہ ذرا گھر ہلا نہیں کہ بنیادیں ہی پھسل پڑیں۔
زلزلے کا مرکز،زمین کی گہرائی میں دس کلومیٹر سے کئی سو کلو میٹر تک ہو سکتا ہے،جو زلزلے زمین کی دس کلو میٹر گہرائی پر چٹانوں کے شق ہونے سے آتے ہیں انہیں اتھلے زلزلے (Shallow eaxthquake (کہتے ہیں ،جبکہ 60کلو میٹر کی گہرائی پر جن کا مرکزہو انہیں درمیانے اور سو سے زیادہ کلو میٹر والے گہرے زلزلے کہتے ہیں۔ زلزلے کا مرکزجتنی زیادہ گہرائی میں ہو وہ اتنا کم نقصان کا سبب بنتا ہے کیونکہ گہرائی سے جب زلزلے کی لہروں کا آغاز ہو تو سطح زمین پر بنی عمارتوں تک پہنچتے پہنچتے ان کی توانائی بہت کم ہو جاتی ہے، البتہ اتھلے زلزلے بڑے خطرناک ہوتے ہیں ،چونکہ چٹانیں سطح زمین سے بہت قریب سے چٹختی ہیں تو زلزلہ پوری توانائی سے اپنے مرکز کے اوپر واقع زمین اور ان پر کی گئی تعمیرات کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ کشمیر کا زلزلہ صرف دس کلو میٹر کی گہرائی پر مظفرآباد سے چند کلو میٹر دور تھا اس لئے ایک بڑی تباہی دیکھنے میں آئی۔ انطاکیہ کے زلزلے کا مرکز زمین میں 16کلومیٹر کی گہرائی پر تھا،یہ اتھلا زلزلہ بھی اپنے ساتھ بہت بڑی بربادی لےکر آیا۔
اب ہم یہ سمجھنے کی پوزیشن میں ہیں کہ ایک زلزلے سے ہونے والی تباہی جس میں جان و مال دونوں کا زیاں شامل ہے، کا انحصار کم از کم چار باتوں پرہے پہلی چیز تو زلزلے کا سائز یعنی کس قوت کی لہریں کتنی توانائی کے ساتھ چٹانوں کے شق ہونے سے اور دراڑ پر حرکت سے خارج ہوئیں یہ ریکٹر اسکیل پر ناپا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ، زلزلے کا مرکز کسی بڑے شہر سے کتنی دوری پر تھا۔ اگر یہ صرف چند کلو میٹر کی دوری پر ہو تو زیادہ بربادی اور سو سے تین سو کلو میٹر دور ہو تو کم نقصانات ،تیسری چیز زلزلے کے مرکز کی گہرائی ہے، زلزلہ بھاری نقصان کے ساتھ اورگہرا زلزلہ تقریباً خیریت سے گزر جاتا ہے۔
یہ تینوں چیزیں وہ ہیں جو قدرتی ہیں اور ہمارا ان پرکوئی کنٹرول نہیں۔ ہم اگر پیشن گوئی کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو نقصانات تو ہو کر رہیں گے، البتہ چوتھی چیز ہے آبادی کا گنجان ہونا، کچے مکانات کی بہتات اور فلیٹوں کی بلڈنگیں، اسکول اور سرکاری ٹھیکیداروں کی بنائی ہوئی کرپشن کی داستانوں سے پُر، بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرتی ہوئی عمارتیں یہی وہ ایک چیز ہے جن پر کنٹرول کر کےزلزلے کی ہولناکیوں کو کم کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ اسے تقریباً ختم کرسکتے ہیں۔
ٹائیٹنک پلیٹ تو اپنے نظام کے تحت ہمہ وقت متحرک رہیں گی وہ آپس میں ٹکرائیں گی ،ان میں دراڑیں پڑیں گی اور جگہ جگہ چٹخنے سے بڑا زلزلہ اور پھر اس کے آفٹر شاکس آتے رہیں گے۔ کشمیر کے زلزلے میں یہ کئی دن تک آتے رہے اور ترکی میں زلزلے کے بعد آج تک آفٹر شاکس آرہےاور جانوں کا نذرانہ لے کر جارہے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ زلزلے کی کامیاب پیش گوئی بھی نقصانات کو نہیں روک پاتی؟ سوچیں اگر کراچی میں ایک تباہ کن زلزلہ آنے کی دن تاریخ بتادی جائے تو شہرکا کیا بنے گا۔ تمام تعمیرات یکسر رُک جائیں گی۔ جائیدادوں کی قیمتیں کریش کر جائیں گی۔ خرید وفروخت مکمل بند ہو جائے گی۔ ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والے محنت کش اور کاریگر اپنے اپنے گائوں قصبےجانے لگیں گے۔ کراچی شہر کے پرانے آباد خاندان بھی سکھر اور میر پور خاص میں رہنے والے رشتے داروں کے پاس کچھ دن کیلئے جانے کی کوشش کریں گے۔ اب اگر زلزلہ آیا تو تباہی ہونا ہی ہے اور پیش گوئی غلط نکلی تو بھی بھاری معاشی نقصان اور زندگی میں ابتری تو آہی گی۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین ارضیات اور زلزلے کا خصوصی مطالعہ کرنے والے جنہیں Seismologist کہتے ہیں وہ پیش گوئی کے بجائے زلزلے کی تیاری اور اس کی مزاحمت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اپنے شہر کا درست ارضیاتی نقشہ بنائیں۔ فالٹ کی لائنوں کی اچھی نشاندہی کریں،اس کے بعد ہی سول انجینئروں کا کام شروع ہوتا ہے کہ ارضیاتی معلومات کی بنیاد پر بلڈنگ کوڈ ترتیب دیں۔
خیال رہے کہ کراچی کے ساحلوں پر بننے والی عمارتوں کا بلڈنگ کوڈ کہیں زیادہ سخت ہوگا کیونکہ ساحلی ریت زلزلے کی ہلکی لہروں کے سامنے بھی ڈھیر ہو جاتی ہے، پھر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا رول شروع ہوتا ہے کہ ان قواعد و ضوابط پر پوری طرح عمل کرائے اور ہر سفارش اور لالچ سے دور رہے۔ یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے،ایک یا دو نہیں ہزاروں جانیں آپ کی ایک غلط منظوری سے خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
زلزلے کی پیشن گوئی ارضیات دانوں اور سیمولوجسٹ مضرات کا کام ہے کہ نجومیوں کا۔ ترکی کے حالیہ زلزلے میں ایک نجومی نے بڑی شہرت سمیٹی،ان سے بچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سازش کی تھیوریوں سے۔ کیا امریکہ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دنیا کے کسی بھی خطے میں زلزلہ برپا کر سکتا ہے۔ الاسکا یونیورسٹی کے پاس دنیا کا سب سے طاقتور ریڈیو ٹرانسمیٹر ہے جو اسے امریکی ملٹری پروگرام نے عطیہ کردیا ہے۔
اسے HAARP یعنی ہائی پاور ہائی فریکوئنسی ٹرانسمیٹر کہتے ہیں ،جو بادلوں سے کہیں اوپر کی فضاکا مطالعہ کرتا ہے اور موسموں میں تبدیلی واقع کرسکتا ہے لیکن اس کے پا س زمین شق کرنے کی طاقت قطعی نہیں اور یہ ہمار ے سازشوں کے شوقین دماغوں کی اختراع ہے کہ ترکی کازلزلہ امریکہ نے ہارپ کے ذریعے سزا کے طور پر مسلط کیا۔
ہم سائنس سے دور بھاگتے ہیں۔ ٹائیٹنک پلیٹوں کی حرکت ارضیات کی ایک مسلمہ تھیوری ہے جو زلزلے کا سبب بناتی ہے لیکن یہ لفظ ان کے لئے اجنبی ہے مگر ہارپ سے زلزلے لائے جا سکتے ہیں، ہرکس وناکس کی زبان پر ہے تیل نکل آیا تھا لیکن شاہ ایران کی درخواست پر اسے بند کردیا گیا کہ ایران کا تیل بہہ کر مکران نہ آجائے۔ سازش کی بو ہمیں ہر واقع اور ہر عمل میں نظرآتی ہے۔ ہم ایک غیر سنجیدہ قوم ہیں۔ جسے انگریزی میں Happy go Lucky اوراُردو میں تماش بین کہا جا سکتا ہے۔ زلزلہ کوئی تماشا نہیں یہ اتنے بھاری جانی اور مالی نقصان کا باعث ہوتا ہے کہ برسوں کی کوششوں کے بعد بھی مداوا نہیں ہو پاتا۔
کشمیر کے زلزلے کو اٹھارہ سال گزر چکے ہیں ۔ کیا ان ہزاروں اسکولوں کی دوبارہ تعمیر ہوگئی، کیا ہر گھر پھر سے آباد ہوگیا، کیا یتیم ہو جانے والے بچے تعلیم حاصل کر سکے یا حکومت نے ان کی کفالت اپنے ذمے لی، ہم تو زلزلے کی امداد میں کرپشن کے دعوے اور جوابی دعویٰ دیکھتے ہیں۔ زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے لیکن انسانی جانوں کا تلف ہونا ایک جرم ہے اور اس جرم کی روک تھام ہو سکتی ہے اگر ترکی کے ماڈل کو یا چلی کی مثال کو اپنا لیا جائے یا پاکستان اپنا ہی کوئی حل نکالے جو دنیا کے لئے مثال ہو۔
پاکستان زلزلے کی بین لا اقوامی پٹی پر واقع ہے۔ یہاں زلزلے ہمہ وقت آتے رہتے ہیں ۔ کبھی بڑے، کبھی درمیانے ۔چھوٹے درجے کے ہچکولے تو روزمرہ کے زمرے میں شمار ہیں۔21 مارچ کو درمیانے درجے کا جھٹکاملک کے شمالی شہروں کو لگا۔ افغانستان، پاکستان اور کئی پڑوسی ملکوں میں تیرہ اموات ہوئیں، زخمیوں کی تعداد اور بلڈنگوں کا نقصان الگ۔ ریکٹر اسکیل پر ہمارے آلات نے چھ اعشاریہ آٹھ ریکارڈ کیا لیکن امریکی جیولوجیکل سروے نے چھ اعشاریہ پانچ۔ دونوں صورتوں میں اس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہو سکتا تھا۔
لیکن بچت یوں ہو گئی کہ زیر زمین چٹانیں 186 کلومیٹر کی گہرائی میں چٹخیں اور زلزلے کی لہریں جب تک سطح زمین بر پہنچیں ان کی توانائی بہت کم ہو چکی تھی۔ اتھلے زلزلے جیسے 2005 کا کشمیر کا زلزلہ سطح زمین سے صرف 10 کلومیڑ نیچے وقوع پذیر ہوا تھا اور 80 ہزار جانوں کا نذرانہ لے کر ٹلا۔ ہمیں زلزلے کے معاملے میں سنجیدہ ہونا پڑ ہے گا۔ عوام کو آگاہی دینا ہو گی اور انجنیئرز اور بلڈرز کو بلڈنگ کوڈ پر عمل کرنا ہوگا ورنہ ہم بھاری نقصان سے دو چار ہو تے رہیں گے۔