ایمان ملک
سعد روزہ رکھنے پر بضد تھا۔ اس کی عمر ابھی صرف نو سال کی تھی۔ دادا جان نے اس کا شوق اور جذبہ دیکھ کر اسے روزہ رکھنے کی اجازت دے دی۔ سحری میں امی نے جگایا تو وہ فوراً ہی اٹھ گیا۔ سب کے ساتھ سحری کی۔ اذان فجر کے بعد ابو اور دادا جان مسجد جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہمراہ چل دیا۔ نماز باجماعت ادا کی اور قرآن پاک کی تلاوت کی۔ مسجد سے واپس آکر اسکول کی تیاری کی اور اپنے دوست فیصل کے ساتھ اسکول چلا گیا۔ فیصل اس کا ہم عمر اور کلاس فیلو تھا، دونوں ہمسائے بھی تھے، اس لیے دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی۔
ساتھ کھیلتے، ساتھ اسکول جاتے اور ساتھ ہی ہوم ورک بھی کرتے تھے۔ سعد نے فیصل کو بتایا کہ آج اس نے روزہ رکھا ہے تووہ بہت حیران ہوا اور سوچنے لگا سعد سارا دن کیسے بھوکا پیاسا رہے گا۔ جب وہ اسکول پہنچے تو اسمبلی کے بعد پرنسپل نے طلبہ کو روزے کے احکام اور رمضان کی فضیلت سے آگاہ کیا۔ کلاس ٹیچر نے کلاس میں روزہ دار بچوں کو سراہا ۔ لنچ بریک میں فیصل نے اپنا لنچ باکس بیگ سے نکال کر سعد کے سامنے رکھا۔ سعد نے اسے یاد دلایا کہ ،’’ آج تو میرا روزہ ہے۔‘‘
’’ابھی تو کوئی بھی تمھیں نہیں دیکھ رہا تم میرے ساتھ لنچ کرلو۔‘‘ فیصل نے اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میں نہیں کھاؤں گا ، کوئی نہیں دیکھ رہا تو کیا ہوا ﷲ تو دیکھ رہا ہے‘‘۔ روزے میں کچھ بھی کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ توڑنا گناہ ہے ‘‘ سعد نے وضاحت دی۔
فیصل خاموش ہوگیا اور اپنا لنچ مزے لے لے کے کھانے لگالیکن فیصل کو ذرا سی بھی بھوک کا احساس نہیں ہوا۔
گھر پہنچ کر سعد نے نماز ظہر ادا کی اور سو گیا۔ شام جب وہ اپنے دادا کے ساتھ نمازِ عصر ادا کرنے مسجد جارہا تھا تو راستے میں اسے فیصل کھیلتا ہوادکھائی دیا۔ اُس نے اسے دیکھتے ہی آواز لگائی، آجاؤ کھلیں، میں تمھیں بلانے آ ہی رہاتھا۔‘‘لیکن سعد نے کھیلنے سے انکار کردیا اور مسجد کی جانب چل دیاا۔ دادا یہ دیکھ کر مسکرائے اور فیصل کو شاباش دی۔
شام کو سعد افطاری دینے فیصل کے گھر گیا تو اُس کی امی نے دروازہ کھولا،اُس نے انہیں خوشی خوشی بتایا کہ’’ آج میں نےبھی روزہ رکھا ہے۔‘‘ فیصل کی امی نےاسے روزہ رکھنے پر شاباش دی۔فیصل نے سعد کے چہرے پرعجیب سی خوشی دیکھی اور اس خوشی کی وجہ دریافت کی۔
’’ابھی افطار کا وقت ہونے والا ہے، پھر میں روزہ افطار کروں گا‘‘سعد خوشی سے بولا۔
’’تم سب کچھ ویسے بھی تو کھا سکتے تھے اتنا بھوکے پیاسے کیوں رہے؟‘‘ فیصل نے پوچھا۔
فیصل کی امی بولیں ’’حضور اکرم صلی ﷲ سعدہ وسلم کی احادیث مبارکہ ہے،’’روزہ دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک روزہ افطار کے وقت دوسری ﷲ سے ملاقات کے وقت ‘‘۔ جب کوئی مسلمان روزہ رکھتا ہے تو اسے افطار کے وقت جو خوشی ملتی ہے وہ دن بھر پیٹ بھر کے کھانے سے بھی نہیں ملتی اور دوسری خوشی جب وہ ﷲ کے سامنے جائے گا تو اپنے روزے کے باعث خوش ہوگا ‘‘۔ انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا میں روزہ رکھ سکتا ہوں‘‘ فیصل نے امی سے پوچھا۔
’’ہاں کیوں نہیں تم بھی روزہ رکھ سکتے ہو لیکن نماز باقاعدگی سے ادا کرو گے، قرآن پاک کی تلاوت ، بڑوں کا کہنا سنو گے، اچھے اور نیک کام کرو گے، تب ہی روزے کا اصل مقصد پورا ہوگا ورنہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔
فیصل نے دل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ وہ بھی کل روزہ رکھے گا۔ دوسرے روز سعد اپنے ابو اور دادا کے ساتھ مسجد گیا تو فیصل بھی وہاں موجود تھا دونوں نے نماز ادا کی مسجد سے واپس آکر دونوں اسکول کی تیاری کرنے لگے۔ آج سعد بہت خوش تھا کیونکہ آج اس کے دوست کا بھی روزہ تھا۔