• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین طب سرطان جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے جدید طر یقے،اسٹیم سیل کے ذریعے علاج اور تھراپیز متعارف کروارہے ہیں۔ ان میں سے چند کی تفصیلات ذیل میں بتائی جارہی ہے۔

سرطان کا جھٹکوں سے علاج

جب سرطان کے خلیوں پر نینو سیکنڈ ہائی وولٹیج پلس کا استعمال کیا جا تا ہے تو یہ خلیے خود کو تباہ کرلیتے ہیں ۔ اس طریقہ کار کو سرطان کے علاج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یہ نینوسیکنڈپلسز، مائیکرو سیکنڈ پلس کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اثرات کی حامل ہیں جن کو لیزر گن میں استعمال کیا جا تا ہے ان کے اثرات بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں۔

ریشم کا کیڑا اور جگنو… جین تھراپی

مکڑی بلاشبہ ایک حیران کن تخلیق ہے ۔ اب تک انسان کے علم میں مکڑی کی 400000 اقسام ہیں ۔ ریشم کی مکڑی جو دھاگا بناتی ہے وہ وزن کے حوالے سے اسٹیل سے زیادہ مضبوط ہے۔ وہ گوند جو مکڑی کے جال کو تھام کر رکھتی ہے، اس کے اندر دو اقسام کی پروٹین ہوتی ہے جو کہ ہزاروں سال میں ارتقاء پذیر ہوکر اس طاقت کی حامل ہوتی ہے ۔ جگنو ایک اور حیران کن کیڑا ہے ۔ کیا آپ نے جگنو کو رات کے وقت چمکتے ہوئے دیکھاہے. اس کی وجہ ان میں موجود ایک خاص پروٹین لیوسی فریز (luciferase)ہے جو کہ ایک مادّے لیوسی فرین (luciferin)سے کیمیائی تعامل کرکے روشنی کی شک میں توانائی پیدا کرتا ہے۔ 

جامعہ ٹفٹ کے پروفیسر ڈیوڈ کپلان اور ان کے ساتھیوں نے ریشم کے دھاگے میں ترمیم کرکے اس کا جگنو کی پروٹین سے ملاپ کیا ہے، تاکہ چھاتی کے سرطان کا جین تھراپی کے ذریعے علا ج کیا جاسکے ۔جین تھراپی یا جین سے علاج بعض بیماٍریوں کے علاج کے لیے کیا جانے والا طریقہ ہے ، جس میں جین میں ہونے والی خرابی کو دور کیا جاتا ہے (نقص والے جین میں ترمیم کرکے جینوم میں فعال جین داخل کرنے کے عمل کے ذریعے)۔ سائنس دانوں نے ریشم کے کیڑے میں ایک جین کو داخل کرکے اس کی جینیاتی ساخت میں ترمیم کی اور پھر اس کو بیماری کے خلیات سے منسلک کیا۔ 

اس عمل کے نتیجے میں وہی پروٹین پیدا ہوتا ہے جو جگنو کے رات کے وقت چمک کا سبب بنتا ہے ۔ ریشم کے کیڑے کی جینیاتی ترمیم شدہ پروٹین چھاتی کے سرطان کے شکار افراد میں منتخب طور پرسرطان کے خلیات سے منسلک ہوجاتی ہے اور یہ خلیات چمکنے لگتے ہیں ۔ اس کے ذریعے سرطان کے مریضوں میں ان خلیات کی آسانی سے شناخت ہوجاتی ہے۔

اسٹیم سیل… سرطان سے جنگ میں میزائل

اسٹیم سیل تحقیق کے میدان میں دل، گردوں اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ اب اسٹیم سیل کو سرطان کے علاج کے لیے گارڈز میزائل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈوارٹے کیلیفورنیا میں قائم Duarte Beckmann Research Institute میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دماغ کے سرطان کے مرض میں مبتلا چوہے کے دماغ میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ اسٹیم سیل انجکشن کے ذریعے داخل کیا اور پھر چوہے کو سرطان کے خلاف کام کرنے والی دوائیں دی گئیں۔ (5-Fluorouracil)۔ 

یہ دیکھنے میں آیا کہ، جس چوہے کا پہلے اسٹیم سیل سے علاج کیا گیا تھا اس کے رسولی کے حجم میں بغیر علاج شدہ کے مقابلے میں 70 فی صد کمی ہو گئی۔بلکہ اس کے ذریعے ان خلیات کی ثانوی نشوونما کو بھی روکا جا سکتا ہے، اس طریقے پر عمل کر کے سرطان کے واحد خلیے کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں پر تجربات جلد ہی شروع کیے جائیں گے۔

اسٹیم سیل… ادویات کے میدان میں نئی سرحدیں 

ادویات کے میدان میں ایک نیا ابھرتا ہوا میدان اسٹیم سیل کا استعمال ہے جو کہ نقصان کا شکار اعضا کی مرمت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانوں میں استعمال کیے جانے والے اسٹیم سیل کی دو اقسام ہیں۔ جنینی اسٹیم سیل اور بالغ اسٹیم سیل۔ اسٹیم سیل دوسرے خلیات کے ساتھ مل کر جسم میں ٹوٹی ہوئی بافتوں (ٹشوز) کی مرمت کا کام کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اندر جسم کے مختلف دوسرے خلیات میں تبدیل (Differentiated) ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان خلیات کی کلچر کے ذریعے نمو کر کے ان کو مختلف دوسرے خلیات مثلا ًاعصابی، جلدی یا آنتوں کے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اسٹیم سیل کے حوالے سے ایک حالیہ پیش رفت میں یہ معلوم ہوا ہے کہ مختلف دواؤں کے استعمال سے ہڈی کے گودے سے مختلف اقسام کے اسٹیم سیل کے اخراج کے عمل کوبذریعہ دخول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ مریض کے لیے مختلف دہندگان (Donors) سے حاصل کردہ اسٹیم سیل (اس صورت میں مریض کا جسم وہ اسٹیم سیل قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے) استعمال کرنے کے بجائے مریض کا اپنا اسٹیم سیل اس کے ہڈی کے گودے سے خارج کروادیا جائے تواس کے ذریعے مخصوص بافتوں (ٹشوز) کی مرمت اور دوبارہ پیدائش (Regeneration) میں مدد مل سکتی ہے۔ 

مریض کے اپنے اسٹیم سیل کو منتخب انداز سے خارج کرنے کی صلاحیت اس تیزی سے ترقی پذیر میدان کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ کام امیپریل کالج لندن کی پروفیسر سارا رینکن اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا۔ اس پیش رفت سے دل کے پھٹے ہوئے ٹشوز (بافتوں) کی مرمت اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور جوڑوں کی مرمت کے عمل کو تیز کرنے اور ان کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

سرطان کے علاج کے لیے نیا نظریہ

ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہونے والی 31 فی صد اموات کا سبب سرطان ہے۔ مختلف اقسام کے سرطان کے علاج کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں جن میں سے بعض کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سرطان کے علاج کے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار میں ایک طریقہ سرطان کے خلیات تک براہ راست دوا کو پہنچانا ہے، تاکہ جسم کے دوسرے صحت مند خلیات کو ان دواؤں کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ 

مارکOstermen (Whiting School of Engineering) میں جان ہاپکنز کیمیکل اینڈ بائیو مالیکیولر انجینئرنگ کے پروفیسر اور جان ہاپکنز اسکول آف میڈیسن میں ارضیات اور سرطان کے پروفیسر Ames R.Etshmanاس بات کی تحقیق کررہے ہیں کہ سرطان کے خلیات ہی میں ان کے علاج کی صلاحیت پیدا کردی جائے۔

اس طرح دوسرے صحت مند خلیات کو نقصان پہنچائے بغیر سرطان کے خلیات اپنے آپ کو خود تباہ کرلیں گے۔اس نظریے کے تحت دو مختلف پروٹین کو ملا کر ایک "Protein Switch" تیار کیا جائے گا۔ ان پروٹین میں سے ایک سرطان کے خلیات کی شناخت کرے گا اور دوسرے میں غیرفعال Prodrugکو سرطان کے لیے مہلک مادّے میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ پہلے مرحلے میں سرطان کے خلیات میں "Switch" داخل کیا جائے گا،پھر مریض کو غیر فعال Prodrug استعمال کروائی جائے گی۔ جب یہ Prodrug سرطان کے خلیات کے قریب آئے گی توپروٹین سرطان کے خلیات کی شناخت کرکے اس غیر فعالProdurgکو فعال دوا میں تبدیل کردے گا، جس کے بعد سرطان کے خلیات ہلاک کردیے جائیں گے۔

سرطان کا نیا علاج … روشنی کے دریا سے (پلازمونز)

سرطان کے علاج کاایک اور نیا طریقے کار تیاری کے مراحل میں ہے۔ اس میں پہلے سے طے شدہ راستے پر روشنی کی موجوں کو سفر کروایا جاتا ہے۔ ارتعاش (Oscillation) یاپلازمونز کا موازنہ پانی کے ساکن تالاب میں پتھر پھینکنے کے عمل سے کیا جا سکتا ہے ،جس کے نتیجے میں پانی سطح پر ہلکورے لیتی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر روشنی کے ذرّات (photons) کسی دھات سے ٹکراتے ہیں تو الیکٹران کی وجہ سے پید اہونے والا ارتعاش پوری سطح پر پھیل جاتا ہے، یہ مزید روشنی کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ 

اس طرح روشنی کے دریا پیدا ہوتے ہیں۔ سائنس کے مختلف میدانوں میں پلازمونز (Plasmons) کے اطلاق کی جستجو جاری ہے، جس میں سرطان کا علاج، شمسی سیل اور بصری Computing، حیاتی کیمیائی حساسیت Bio Chemical Sensing شامل ہیں۔ اس وجہ سے یہ طبیعیات کے میدان کا اہم ترین حصہ بن گیا ہے۔رائس یونیورسٹی ہوسٹن کیNomani Halas نے سونے کے نینو ذرّات سرطان پر حملہ کرنے والے اینٹی باڈیز کے ساتھ ملا کر چوہے کے جسم میں انجکشن کے ذریعے داخل کیے۔ 

جیسے ہی ہرنینو ذرّہ (Nano-Particle) اینٹی باڈی یونٹ کی رسولی سے منسلک ہوتے ہیں، رسولی کمزور انفرا ریڈ روشنی کے سامنے آجاتی ہے، بعدازاں نینو ذرّات کی حدت سے رسولی تباہ ہو جاتی ہے۔ سرطان کے علاج کے اس طریقے نے چوہے پر بہت اچھے نتائج کا اظہار کیا اب اس کی مزید مطبی پڑتال انسانوں میں کی جارہی ہے۔ سرطان کی کئی اقسام کا علاج ان کو ”روشنی کے دریا“ کے سامنے لانے میں ہے، جو کہ الیکٹرون کی موجوں پر سفر کرتے ہیں۔

سرطان کی ابتدائی تشخیص… ڈرامائی ترقی

رپوٹ کے مطابق ہر سال8لاکھ افراد سرطان کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری کے ساتھ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس وقت شناخت ہوتا ہے جب یہ کافی بڑھ چکا ہوتا ہے، پھپھڑے کے سرطان میں رسولی (ٹیومر) اس وقت نظر آتی ہے جب اس کا سائز کرکٹ کی گیند کے برابر ہو چکا ہوتا ہے، چناں چہ پھپھڑے کے سرطان کے 9 فی صد مریض اس کی تشخیص کے پانچ سال کے اندر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

صحت کے حوالے سے معمولی اسکریننگ میں ابتدائی سرطان کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی دیر سے تشخیص مرض کو اس قدرپیچیدہ کر چکی ہوتی ہے کہ اس کا علاج کافی دشوار ہو جاتا ہے۔(UK Nottingham) اور کنساس (امریکا )کے سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے 51 سال کی تحقیق کے بعد سرطان کی تشخیص کے لیے ایک سادہ سا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے ،جس کو اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ اس نئی ٹیکنالوجی میں سرطان کی پہلی مالیکیولی علامت کا سراغ لگانا شامل ہے جب سرطان کے خلیات بننا شروع ہوتے ہیں تو بعض مخصوص پروٹین (Antigens)پیدا ہوتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کو تیز کر دیتے ہیں اوراینٹی باڈیز تشکیل کے ذریعے ردعمل دیتے ہیں۔

تیا رکیا گیا خون کا ٹیسٹ اس سرگرمی کو دریافت کرے گا اور سائنس دانوں کو بالکل درست Antigens اور اس سے منسلک اینٹی باڈیزکی شناخت میں مدد ملے گی ،جس کے ذریعے زیر تشکیل سرطان کی رسولی کی قسم کی شناخت ہو سکے گی۔ یہ کام مریض کے صرف10ملی لیٹرخون سے ہو سکے گا جو کہ معمول کے ٹیسٹ میں شامل ہو گا اس کے ذریعے سرطان کا ابتدا ہی میں سراغ لگا لیا جائے گا جو کہ عام طو رپر قابل علاج مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیسٹ امریکااور بر طانیہ میں کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیسٹ پائلٹ مطالعہ میں پھپھڑے کے سرطان کے مریضوں کے علاج میں ڈرامائی بہتری اور9 فی صد دوسرے ٹھوس سرطان میں اہم پیش رفت کا حامل رہا ہے۔

سرطان… اس کے پھیلنے کا اندازہ لگانا

ہر سال ہونے والی اموات میں 31فی صد اموات سرطان کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس شرح میں اوسط عمر اور بڑی عمر کے افراد میں اضافے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی دواؤں کی تیاری سے اب سرطان قابل علاج مرض بن گیا ہے۔ بالخصوص اگر اس کا ابتدائی مرحلے پر ہی سراغ لگا لیا جائے اکثر رسولیاں ثانوی نمو (Metastasis) کی طرف مائل ہوتی ہیں جو کہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ 

چناں چہ اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس قسم کی نمو کے رجحان کا ابتدا ہی میں ان کے وقوع سے پہلے پتا لگا لیا جائے۔Bethesda، میری لینڈ امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈپولپمنٹ میں اس حوالے سے اہم کامیابی سامنے آئی ہے۔ 

انہوں نے پتا لگایا ہے کہ ثانوی نمو( Secondary Growth )کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ایک خاص پروٹین Carboxy Peptidase E کی ترمیم شدہ شکل ٹیومر میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ پروٹین ٹیومر میں ثانوی نموکے ذمہ دار جین کو فعال کر دیتی ہے۔ اس قسم کے رجحان کا ابتدا میں سراغ لگانے کا عمل سرطان کے علاج کے لیے ایک اور اہم طاقتور ہتھیار مہیا کرے گا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید