پاکستانی معاشرے میں آئین اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے جس انقلابی سفر کا آغاز مارچ2007ء میں ناجائزمطالبات ماننے سے انکار پر وقت کے ڈکٹیٹر کے ہاتھوں عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی جبری برطرفی کے خلاف پوری قوم کے اٹھ کھڑے ہونے کی شکل میں ہوا تھا، یہ حقیقت انتہائی خوش آئند ہے کہ وہ سفر مسلسل نئی منزلوں کی جانب جاری ہے۔تازہ ترین پیش رفت جنرل مشرف کے تین نومبر 2007ء کے آئین شکن اقدامات کے خلاف عدالتی کارروائی کے آغاز کی صورت میں سامنے آئی ہے۔آئین کی بالادستی کے اس مرحلے تک ہم تقریبا ساٹھ برس میں پہنچے ہیں۔اس ملک میں کئی دہائیوں تک آئین اور قانون کے غیرجمہوری حکمرانوں کی خواہشات کے سامنے سرنگوں رہنے کی ظاہری وجہ عدالت عظمیٰ کا غیرمنتخب سربراہ مملکت کی جانب سے منتخب پارلیمنٹ کے توڑنے کے عمل کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دینا تھا۔ اس کے بعد نظریہ ضرورت کا یہ آسیب اس قوم پر اس بری طرح مسلط ہوا کہ ایک کے بعد دوسرا طالع آزما جمہوری نظام کی سب سے مقدس دستاویز یعنی ملک کے آئین کواپنے پیروں تلے روند کر اس قوم پر کسی استحقاق کے بغیر حکومت کرتا رہا۔ 1954 ء میںجسٹس منیر کی جانب سے گورنر جنرل غلام محمد کے غیرآئینی اقدامات کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے تراشا جانے والا نظریہ ضرورت، ان کے بعد ایوب خان کے دس سالہ فوجی اقتدار، جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا، جنرل ضیاء الحق کی جانب سے منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد گیارہ سال تک مسند اقتدار پر فائز رہنے اور بارہ اکتوبر1999ء کو منتخب جمہوری حکومت کے خلاف جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ تاہم یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ ملک کی سیاسی قوتیں بھی آمروں کے خلاف متحد ہونے کے بجائے اکثر ان کا ساتھ دیتی رہیں۔بلکہ اکثر منتخب جمہوری حکومتوں کے خلاف ان کے سیاسی مخالفین فوجی قیادتوں سے مداخلت کی فرمائشیں کرتے رہے۔ جنرل مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں نے ان کے لئے خیرمقدمی بیانات جاری کئے۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے بعد سیاسی قوتوں کے تعاون سے 17 ویں آئینی ترمیم عمل میں آئی جس سے آمرانہ اقتدار کو سہارا ملا۔تاہم ان تجربات سے سیاستدانوں سمیت پوری قوم نے سبق سیکھا اور مارچ 2007ء میں جنرل مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جبری برطرفی قبول کرنے سے پورے پاکستان نے انکار کردیا۔ وکلاء اس تحریک کا ہراول دستہ بنے اور میڈیا نے قوم کے جذبات کو پوری دنیا تک پہنچایا۔ جنرل مشرف نے تین نومبر2007ء کو ایمرجنسی کے نام پر آئین کی بساط لپیٹنے کی ایک بار پھر کوشش کی مگر اب قوم آئین وقانون کی بالادستی کے لئے کوشاں عدلیہ کی پشت پر تھی، لہٰذا یہ کوشش بالآخر ناکام ہوئی۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جمہوری دور میں جنرل مشرف کی برطرف کردہ اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ نے آئینی ترامیم کے ذریعے آئین کو اس کی اصل جمہوری شکل میں بحال کردیا۔اس طرح ملک میں جمہوریت مستحکم ہوئی اور آئین و قانون کی بالادستی کی راہ ہموار ہوئی۔ اب جنرل مشرف کے آئین اور عدلیہ کے خلاف تین نومبر کے اقدام پر آئین کی دفعہ چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی شروع ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں مستقبل میں آئین شکنی کے اقدامات کا سدباب ہوگا اور پاکستان ایک مہذب جمہوری ملک کی حیثیت سے قوموں کی برداری میں باوقار مقام حاصل کرسکے گا۔ تاہم یہ نقطہ نظر قابل توجہ ہے کہ یہ کارروائی محض تین نومبر کے اقدام تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ بارہ اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت سمیت ماضی کے تمام آئین شکن اقدامات کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے ۔ بلاشبہ ماضی کے واقعات کے ذمے دار وں میں سے اکثر اب دنیا میں موجود نہیں مگر ان کے خلاف علامتی کارروائی ایک منطقی تقاضا ہے تاکہ ان کارروائیوں کو فراہم کردہ عدالتی جواز کا غلط ہونا ریکارڈ پر آجائے اور ان فیصلوں کو کسی بھی صورت کہیں بھی نظیر نہ بنایا جاسکے۔
امداد نہیں تجارت
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اس سال بہتر ہو گی ہم معیشت کو امداد کے بجائے تجارت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جمعہ کے روز وزیر اعظم ہائوس میں ملتان اور ساہیوال ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمینٹ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنا حکومتی کوششوں کا نتیجہ ہےملکی معیشت ہی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اندھیرے پاکستان کا مقدر نہیں بہت جلد انہیں شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں جس ملک سے تعاون بھی ضروری ہوا حاصل کریں گے۔ ان کا یہ کہنا ہر صورت درست ہے کہ توانائی کی قلت کی وجہ سے صنعتی و زرعی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل ہونے کے بعد پاکستانی مصنوعات کو 27 یورپی ممالک میں رسائی حاصل ہو گئی ہے اور اس طرح ملک کی ایکسپورٹ میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔ ملک میں 10 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ توانائی بحران پر قابو پا یا جائے اور اس طرح میاں نواز شریف کا ’’امداد نہیں تجارت ‘‘کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حالیہ دورہ امریکہ میں بھی امریکی صدر اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو امداد نہیں تجارت کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس حوالے سے ملکی صنعتی ترقی کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے چین، ترکی اور دوسرے ممالک سے معاہدے بھی کئے گئے ہیں ۔بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے کئی اہم منصوبوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے ۔وزیر اعظم اور ان کی ٹیم اس سلسلے میں کئی اہم پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے ۔وزیر اعظم یوتھ قرضہ اسکیم کا آغاز کر دیا گیا جس سے پہلے مرحلے میں 30لاکھ نوجوانوں کو فائدہ ہو گا اور اس سے جہاں زرعی شعبہ کو پھلنے پھولنے کے مواقع ملیں گے وہاں گھریلو صنعت بھی پروان چڑھے گی ۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر ہر صورت قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کئے جائیں ۔
المیہ مشرقی پاکستان کا تازہ زخم !
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے عمر رسیدہ لیڈر عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد بنگلہ دیش میں فسادات پھوٹ پڑے ہیں، حزب اختلاف نے اتوار کے روزملک بھر میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ مختلف مقامات پر بم دھماکے ہوئے ہیںاور مظاہرین اور عوامی لیگی کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔بنگلہ دیش جو کسی زمانے میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا بھارت کی کھلی مداخلت اور بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں علیحدہ ہو گیا تھا ۔مگر بڑی عجیب بات ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے کئی عشروں کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے اندرون بغاوت اور بیرونی مداخلت کے وقت پاکستان کی حمایت کرنے والوں پر مقدمات چلا کر سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔پاکستان کی قومی اسمبلی نے بنگلہ دیش سپریم کورٹ کی طرف سےعبدالقادر ملا کو بیالیس برس پہلے کئے جانے والے ایک مبینہ جرم میں دی جانے والی سزا پر آواز احتجاج بلند کی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بھی اس اقدام پر سخت اظہار افسوس کیا ہے ۔جس زمانے میں عبدالقادر ملا نے پاکستان کا ساتھ دیا اگر ان کے اس فعل کو جنگی جرائم میں شمار کیا جا سکتا ہے تو پھر اس عہد میں بھارت کی امداد اور اعانت سے مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے پاکستان کی حمایت کرنے والوں پر جو سفاکانہ مظالم کئے گئے وہ بھی جنگی جرائم کی ذیل میں آتے ہیں اس لئے اگر ان سے اس بنا پر صرف نظر کیا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ اب جنگ آزادی شمار کی جاتی ہے تو دوسرے فریق سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس وقت کی سرگرمیوںکوبھی اپنے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے حب الوطنی کا تقاضا سمجھتے ہوئے صرف نظر کیا جانا چاہئے۔اس باب میں نیلسن منڈیلا کے طرز عمل سے سبق لیا جانا چاہئے اور یہ بھی سوچنا چاہئے کہ مسلم ممالک میں آئے روز ہونے والے ہنگاموں سے ان کی معیشت اور معاشرت پر کتنے تباہ کن اثرات ہو رہے ہیں ۔کیونکہ مسلم ممالک کی معیشت میں مجموعی طور پر آنے والی گراوٹ اب پستی کے اس مقام تک پہنچ رہی ہے کہ اسے سنبھالا دینے کیلئے محنت شاقہ کے علاوہ خاصا وقت بھی درکار ہو گا۔