• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

نیکی چھوٹی ہو یا بڑی، اللہ تعالیٰ اس کا اجر کسی نہ کسی صورت دے ہی دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو یہ تاکید فرمائی ہے کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو۔‘‘ (مسلم، ترمذی، سنن ابی داؤد، مسنداحمد) کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجّہ اس طرف نہیں جاتی، لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ نیکی کے حوالے سے اسی طرح کا ایک واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا، قارئین کی نذر کررہا ہوں۔

میری شادی 12 جولائی 1979 ء کو کراچی میں ہوئی۔ ہمارا پورا خاندان اسلام آباد میں مقیم تھا، لہٰذا صرف 20افراد پر مشتمل باراتی، بارات لے کر اسلام آباد سے کراچی گئے۔ عقدِمسنونہ اور شادی کے جملہ رسوم سے فارغ ہوئے، تو فیصلہ ہوا کہ دولھا، دلہن بذریعہ جہاز اور ساتھ آئے تمام باراتی بذریعہ ٹرین واپس اسلام آباد جائیں گے۔ اس زمانے میں ہوائی جہاز سے سفر کرنے والوں کا کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ بہرحال، مقررہ تاریخ کو20باراتی ٹرین سےروانہ ہوگئے۔ 

چار روز بعد مَیں بھی اپنی نئی نویلی بیگم کے ساتھ اسلام آباد جانے کے لیے کراچی ائرپورٹ پہنچ گیا۔ شام پانچ بجے جہاز نے اڑان بھری اورسوا، ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد طیارہ اسلام آباد کی فضائوں میں پہنچا، تو اسے لینڈنگ کی اجازت نہ ملی۔ معلوم ہوا کہ اسلام آباد ائرپورٹ پر پی آئی اے ملازمین کے مابین جھگڑے نے اس قدر طول پکڑ لیا کہ حالات انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوگئے، تمام معمولات درہم برہم ہوگئے، حتی ٰ کہ مسافر طیاروں کو بھی لینڈنگ اور فلائی تک کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اس غیرمعمولی صورتِ حال سے مسافروں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بالآخر پائلٹ نے اسلام آباد ائرپورٹ پر کئی چکّر لگانے کے بعد جہاز کا رخ کراچی کی جانب موڑ دیا اور تقریباً ساڑھے سات بجے مسافروں کو دوبارہ کراچی ائرپورٹ پہنچادیا گیا۔

جہاز سے اتر کر لاؤنج کی جانب جاتے ہوئے میری نظر ایک خاتون پر پڑی، جو ایک بھاری بھرکم بیگ بمشکل اٹھا کر لے جانے کی کوشش کررہی تھیں۔ منحنی جسامت کی اس خاتون کو بیگ اٹھانے میں انتہائی دشواری ہورہی تھی۔ مَیں نے لپک کر ان سے بیگ لے لیا اور کہا ’’میڈم! یہ مجھے دے دیں، مَیں لائونج تک پہنچادیتا ہوں۔‘‘ پھر لاؤنج میں انہیں اپنی بیگم ساتھ بٹھا کر باہر نکل آیا اور ٹیلی فون بوتھ سے سسرال فون کرکے واقعے سے متعلق آگاہ کیا اور کہا کہ اسلام آباد حنیف صاحب کے گھر فون کرکے اطلاع کردیں۔ 

حنیف صاحب ہمارے پڑوسی تھے اور ٹیلی فون کے محکمے میں کام کرتے تھے، اس لیے پوری گلی میں صرف ان کے گھر فون کی سہولت تھی۔ فون کرکے آیا، تو اتنی دیر میں میری بیگم اور ان صاحبہ کی دوستی ہوچکی تھی۔ ویسے بھی نئی نویلی، زیورات سے آراستہ دلہن سب کی نگاہوں کا مرکز تھی۔ تھوڑی دیر بعد کھانا وصول کرنے کے لیے آواز لگائی گئی، تو بھگدڑ مچ گئی۔ دو ٹکٹ کے حساب سے ہمیں دو ہی باکس ملے، لیکن میں کسی نہ کسی طرح تین باکس لے آیا۔ ایک باکس ان صاحبہ کو بھی دیا، تو انہوں نے شکریہ ادا کیا۔ پھر غالباً رات ڈیڑھ دو بجے اعلان ہوا کہ ’’اسلام آباد جانے کے لیے پرواز تیار ہے۔ سب مسافر جہاز پر تشریف لے جائیں۔‘‘ ہمارے پاس ہینڈ کیری کی صورت میں صرف ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ 

جہاز پر سوار ہونے کے لیے اٹھے تو اس بار بھی میں نے محترمہ کا بیگ اٹھالیا اور جہاز تک پہنچادیا۔ اسلام آباد ائرپورٹ پہنچے، تو جہاز سے اترتے وقت ایک بار پھر مَیں نے محترمہ کا بیگ اٹھالیا اور لاؤنج تک لایا۔ وہاں بیلٹ سے اپنا سامان لے کر ائرپورٹ سے باہر جانے لگے، میری بیگم نے الوداعی نگاہوں سے محترمہ کی طرف دیکھا، تو انھوں نے پوچھا کہ ’’آپ اسلام آباد میں کہاں رہتے ہیں اور کیسے جائیں گے؟‘‘ 

میں نے بتایا کہ ہم میلوڈی سنیما کے چوک کے قریب ہیں، ابھی اندھیرا ہے اس لیے خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ گھر والوں کو بھی ہماری آمد کی کوئی خبر نہیں ہے، لہٰذا صبح ٹیکسی سے چلے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’فکر نہ کریں، میری گاڑی آرہی ہے۔ مَیں کھیوڑا میں رہتی ہوں۔ آپ لوگوں کو بھی گھر چھوڑ دوں گی۔‘‘ پھر کچھ ہی دیر بعد ان کی گاڑی آگئی، جس میں بیٹھ کر ہم اطمینان و سکون سے بہ حفاظت گھر پہنچ گئے۔

گھر کی دہلیز پر پہنچے، تو صبح کی اذان ہو رہی تھی۔ مَیں نے ان خاتون کا شکریہ ادا کیا، ان کا نام و پتا بھی لیا۔ اس زمانے میں اسلام آباد انتہائی پرسکون شہر تھا۔ گھروں کے سب دروازے کھلے ہوتے تھے۔ گھر میں داخل ہوکر سامان نیچے چھوڑ کر آہستگی سے دبے قدموں اوپر اپنے کمرے میں جانے لگے تو میری سالی، روبینہ شریف، جو پہلے ہی سے ہمارے گھر مقیم تھیں، جاگ گئیں اور اس طرح ہمیں دبے قدموں اوپر جاتے دیکھ کر حیران رہ گئیں، ہم نے اشارے سے انھیں چپ کرواتے ہوئے کہا کہ ’’سب کو سونے دیں، نیند خراب نہ کریں۔‘‘ 

صبح آٹھ بجے روبینہ نے امّی کو بتایا کہ آپ کی بہو آچکی ہیں اور اوپر سورہی ہیں۔ یہ سنتے ہی گھر میں ہنگامہ مچ گیا کہ دلہن آگئی ہیں۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگوں کو خوش آمدید کہنے اور دلہن کے استقبال کے لیے گھر کے تمام افراد کل جب ائرپورٹ پہنچے، تو معلوم ہوا کہ ائرپورٹ سیکیوریٹی فورس اور کسٹم والوں میں جھگڑا ہوجانے اور فائرنگ کے باعث حالات کشیدہ ہوگئے۔ اس لیے جہاز ائرپورٹ پر نہیں اترسکا، لہٰذا مایوس ہوکر واپس لوٹ آئے۔‘‘

آج چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے، تو ان محترمہ کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اگر میں ان کا وزنی بیگ نہ اٹھاتا، تو ائرپورٹ سے گھر تک باآسانی نہیں پہنچ پاتا۔ واقعی کر بھلا، تو ہو بھلا۔ (پروفیسر (ر) جاوید محسن ملک،اسلام آباد)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔