• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کی پہچان پارلیمنٹ ہے۔ ایک دعویٰ ایک صاحب نے ٹی وی پر کیا تو اچانک یہ خیال آیا کہجمہوریت کی تعریف جس کا جو دل چاہتا ہے کر دیتا ہے بغیر سوچے سمجھے،پارلیمنٹ یقینا ایک قابل احترام ادارہ ہے جہاں قانون سازی کی جاتی ہےلیکن اس کے اراکین کے رویے عوام دوست نہیں ہوتے جو اکثریت کی بہتری کے لئے فیصلے کر سکیں،پچھلے تیس برسوں سے اگر پارلیمنٹ کے اراکین کے رویوں کا مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ سب قومی اسمبلی یا سینٹ کا حصہ تو بننا چاہتے ہیں لیکن حصہ بننے کے بعد اپنے آپ کو بالکل ہی الگ مخلوق سمجھتے ہیں جن سے کوئی باز پرس نہ ہو سکتی ہو،یہ اراکین پارلیمنٹ میں اپنا کردار بخوبی انجام دینے کی بجائے پارلیمنٹ کے سیشنز سے غائب رہتے ہیں،الٹا تنخواہ اور تمام مراعات فوری طور پر حاصل کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہے،(لطف کی بات یہ کہ ان تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لئے فنڈز ہمیشہ موجود رہتے ہیں بلکہ غیر حاضر "گھوسٹ رکن" کو بھی پوری تنخواہ اور مراعات، پرانی تاریخوں سے پوری گن کر دی جاتی ہیں)،یہاں جب جس کا دل چاہتا ہے سیٹ چھوڑ دیتا ہے، کسی کا انتقال ہوجائے یا کوئی پارٹی فیصلوں سے مجبور ہوکر مستعفی ہو جائےفوری طور پر ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا جاتا،اس کے اخراجات اٹھانے کے لئےتمام وسائل اور فنڈز موجود ہوتے ہیں،ایک شخص کئی کئی جگہ سے الیکشن لڑتا ہے جب کہ اس کو ایک ہی جگہ کی نشست رکھنے کی اجازت ہوتی،نشستوں کو چھوڑ نے پر جہاں پھر الیکشن کروائے جاتے ہیں (انتہا ہے ملکی وسائل کے زیاں کا) فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں آتا،2023 انتخابات کا سال پی ٹی آئی کے لوگوں کے استعفے قبول کر لیے گئے ہیں اور اب ان نشستوں پہ انتخابات ہونگے ،منتخب اراکین کی اسمبلی میں قیام کی مدد مشکل سے دو سے تین مہینے ہوگی جن میں سے وہ بامشکل وہ ایک دو دفعہ ہی اجلاس میں شرکت کر سکیں گےلیکن چونکہ پارلیمنٹ "جمہوریت " کی پہچان ہے اس کی نشستیں پوری ہونی چاہیں،اراکین بھلے سے پارلیمنٹ میں آئیں یا نہ آئیں ان کا کھاتا چلنا چاہیے آخر کو وہ بھی مستحقین میں شامل ہیں اور ٹیکس دینے والوں کو ایسے محتاجوں کے لئے ٹیکس دیتے رہنا چاہے،لیکن جو سب سے زیادہ ضروری اور اہم ادارہ بلدیاتی نظام ہے اس کی حکومتوں کے قیام کی طرف کوئی توجہ نہیں،جو کہ صحیح معنوں میں جمہوریت کی عکاس ہیں۔ جو ہر علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ دار ہیں لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک بلدیاتی نظام کی مضبوطی کے لے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی۔ بلدیاتی حکومتیں بن بھی جائیں تو ان کے اختیارات میں صوبائی حکومتیں رخنہ ڈالنا شروع کردیتی ہیں،کسی طرح ایک بلدیاتی حکومت مدد پوری کرتی ہے پھر اگلے انتخابات کی تاریخ ہی نہیں دی جاتی سال پہ سال گزر جاتے ہیں،یہی حال سندھ کے بلدیاتی نظام کا ہے ،کئی دفعہ ملتوی ہو ہو کے جنوری میں انتخابات ہوئے لیکن کچھ جگہوں کے انتخاب رہ گئے اب اس کے تاریخ کا تعین ہی نہیں ہو پا رہا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین