• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات ملتوی کیس: سپریم کورٹ نے حکومت سے سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی مانگ لی

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج تیسرے دن پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حکومت سے سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی مانگ لی۔

عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ انتخابات ملتوی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

فاروق نائیک کی فل کورٹ بنانے کی استدعا

دورانِ سماعت سپریم کورٹ میں حکومتی اتحاد کے وکلاء روسٹرم پر موجود تھے، اس موقع پر وکیل فاروق نائیک نے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ یہ فیصلہ ہو کہ فیصلہ 4/3 تھا یا 3/2 کا، پورے ملک کی قسمت کا دار و مدار اس مدعے پر ہے، قوم ایک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کو عوام کی عزت، وقار اور اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔

عدالت کا ماحول خراب نہ کیا جائے: چیف جسٹس کی ہدایت

چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت کی کہ اپنی درخواست تحریری طور پر جمع کرائیں، عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ کیس سننے سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، پہلے دائرہ اختیار کے معاملے پر فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس مدعے پر فیصلہ تب کریں گے جب درخواست سامنے ہو گی، پرسکون رہیں، پُرجوش نہ ہوں۔

اس موقع پر وکیل عرفان قادر الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پہلے ہم الیکشن کمیشن کو سنیں گے، آپ تمام لوگ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں، اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کہاں ہیں؟ الیکشن کمیشن نے دستاویزات داخل کرنا تھیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میری آج پہلی پیشی ہے، ایک پروسیجر ہے، عدالت کو جلدی کیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ اگر دستاویزات نہیں تو آپ اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ دوسرے وکیل کو سپر سیڈ کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کی مرضی ہے، جو آپ کرنا چاہیں، عدالت جس وکیل کو لینا چاہتی ہے لے لے، میں روسٹرم چھوڑتا ہوں، جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے بطور وکیل الیکشن کمیشن سننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل حامد علی شاہ اور سجیل سواتی آئے تھے۔

عرفان قادر ’ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں‘ کہہ کر کمرۂ عدالت سے چلے گئے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آ گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ پہلے الیکشن کمیشن یہ بتائے کہ انہوں نے شیڈول جاری کیسے کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس جب آرڈر آف دی کورٹ آیا ہی نہیں تو اس نے عمل کیسے کیا؟ سپریم کورٹ کا حکم وہ ہوتا ہے جو آرڈر آف دی کورٹ ہو، وہ جاری نہیں ہوا، کیا آپ نے عدالت کا مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ممکن ہے کہ فیصلہ سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟ یکم مارچ کے فیصلے میں کہیں درج نہیں کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلافِ رائے جج کا حق ہے، ججز کی اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلہ دے کر دستخط بھی کیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز کے ریمارکس فیصلے کے انتظامی حصے کی حد تک تھے، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟

جو معاملہ چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطے پر اپنے دلائل دیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا مؤقف ہے؟

وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ چار تین کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخ بھی تجویز کی، سپریم کورٹ کا فیصلہ 3 مارچ کو موصول ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ کے مطابق فیصلے پر عمل درآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سیکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر انتخاباتی شیڈول بھی جاری کر دیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کا آرڈر کس وقت جاری کیا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ انتخابات ملتوی کرنے کا حکم 22 مارچ کی شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذاتِ نامزدگی سمیت شیڈول کے مراحل مکمل ہو چکے تھے، فوج نے الیکشن کمیشن کو سیکیورٹی دینے سے انکار کیا، آرٹیکل 17 ووٹنگ کا حق پُرامن ماحول میں پورا ہونے کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پُرامن سازگار ماحول میں ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن نے 2 فروری کو فوج، رینجرز اور ایف سی کو سیکیورٹی کے لیے خط لکھے، خیبر پختون خوا میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹس دیں کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہو چکے ہیں، خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے اجلاس بھی ہوئے۔

KPK میں دہشتگردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دہشت گردی سے متعلق باتیں بہت اہم ہیں، کیا یہ سب صدرِ مملکت کو بتایا گیا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ تمام صورتِ حال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، بھکر اور میانوالی میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہرکی گئی، الیکشن کے لیےمختلف فورسز کی 4 لاکھ 12 ہزارنفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، الیکشن کمیشن کو فروری میں ہی معلوم تھا کہ 6 سے8 ماہ تک انتخابات کرانا ممکن نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے التواء میں 8 فروری کے خطوط پر انحصار کر رہا ہے، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، آپ کو تو فروری میں ہی پتہ تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو الیکشن کمیشن نے صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں تجویز کی؟

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے بہت سارے سوالات کرنے ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ دلائل جاری رکھیں، پھر سوالات کے جواب دیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ پس منظر کے طور پر خفیہ ایجنسیز کی رپورٹس کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے التواء کا فیصلہ 22 مارچ کو ہی کیا، وزارتِ داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتِ حال کا ذکر کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب روپے خرچ کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ 5 ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں، وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سیکریٹری خزانہ نے بتایا ہے کہ 20 ارب روپے جاری کرنا ممکن نہیں ہو گا، پنجاب کے لیے 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کے لیے قومی اسمبلی نے پہلے سے فنڈز کی منظوری دی ہوئی ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ وزارتِ خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023ء میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023ء الیکشن کے لیے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا؟

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے لیے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو ٹوٹل کتنا خرچ ہو گا؟

ملک میں ایکساتھ انتخابات کا خرچ 47 ارب روپے

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ ملک بھر میں ایک ہی بار انتخابات ہوں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اسپیشل سیکریٹری برائے داخلہ نے بتایا ہے کہ سیاسی شخصیات کو سیکیورٹی خطرات ہیں، وزارتِ داخلہ کے مطابق سیکیورٹی خطرات صرف الیکشن کے دن نہیں، الیکشن مہم میں بھی ہوں گے، وزارتِ داخلہ نے عمران خان پر حملے کا بھی حوالہ دیا تھا، امریکی انخلاء کے بعد افغانستان سے دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ یہ باتیں صدرِ مملکت کے علم میں نہیں لائے؟ اگر صدرِ پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے، صدرِ مملکت نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا کہ علاقوں کو کلیئر کرنے میں 6 ماہ لگیں گے، سیکیورٹی سے متعلق اعداد و شمار بڑے سنجیدہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پنجاب نے بھی مختلف علاقوں میں جاری آپریشن کا ذکر کیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو علم ہے کہ کچے کے علاقوں میں ہر 2 سے 3 دن بعد آپریشن ہوتا ہے؟ پنجاب میں کچے کا آپریشن کب مکمل ہو گا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ پنجاب کے مطابق کچے کے علاقے میں آپریشن مکمل ہونے میں 6 ماہ تک لگ جائیں گے، الیکشن کمیشن کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی گنجائش نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹس میں جو حقائق بیان کیے گئے وہ نظر انداز نہیں کر سکتے۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کوئی طریقہ کار ہے کہ الیکشن کمیشن خفیہ رپورٹس کی تصدیق کروا سکے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ تو ہے، دہشت گردی کے واقعات میڈیا پر رپورٹ ہو رہے ہیں، 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90ء کی دہائی میں 3 بار الیکشن ہوئے، 90ء کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58 ٹو بی کے ہوتے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی، صدرِ مملکت کو یہ حقائق بتائے بغیر الیکشن کمیشن نے تاریخیں تجویز کیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ صدرِ مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر الیکشن کمیشن کو نہیں، وزیرِ اعظم کو خط لکھا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پنجاب میں بھی دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے، آخری واقعہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگرادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات کرائے گا؟ بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈز کی دستیابی کا بھی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا  کہ الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر انتخابات میں سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہو گا، اسپیشل سیکریٹری برائے داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پُرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا ہے کہ خیبر پختون خوا میں کالعدم تنظیموں نے کچھ علاقوں میں ہولڈ بنا رکھا ہے، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں، 2023ء میں کے پی میں سیکیورٹی کی 443 تھریٹس موصول ہوئیں، جبکہ دہشت گردی کے 80 واقعات ہوئے، 170 شہادتیں ہوئیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں 6 سے 7 ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سیکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے، خیبر پختون خوا کے 80 فیصد علاقوں میں سیکیورٹی خطرات زیادہ ہیں، فنڈز اور اداروں کی معاونت ملے تو پنجاب میں الیکشن کرانے کو تیار ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، 2 اسمبلیاں تحلیل ہیں، الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم اپنی آئینی ذمے داریوں سے انحراف نہیں کر رہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یعنی الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریوں کے لیے تیار ہے، صرف معاونت درکار ہے؟ ہر انسانی جان قیمتی ہے، دہشت گردی کے واقعات سنگین ہیں، فرنٹ لائن پر عوام کا تحفظ کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، عدالت نے ان حالات کے ساتھ آئین کو بھی دیکھنا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 20 مارچ کو وفاقی کابینہ کو خط لکھا، کابینہ نے 21 مارچ کو الیکشن کمیشن کو جواب میں وزارتِ دفاع کے مؤقف کی تائید کی، کابینہ نے کہا کہ الیکشن کے لیے فوج کی تعیناتی کی منظوری نہیں دے سکتے، کابینہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے بھی معذرت کی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا؟ الیکشن کمیشن شیڈول منسوخ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کر سکتا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر عمل کیا۔

8 اکتوبر جادوئی تاریخ ہے جو سب ٹھیک ہو جائیگا؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ 8 اکتوبرکی تاریخ کیا جادوئی ہے جوسب ٹھیک ہو جائے گا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ 8 اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کاہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے، الیکشن کمیشن سے عدالتی سوالات پر ہدایات لے لیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل سے استفسار کیا کہ جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے؟ صبح سے پوچھ رہا ہوں کوئی بھی عدالتی حکم سامنے نہیں لا رہا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی سمجھ کے مطابق فیصلہ 3/2 کا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلتے رہنے دینا ہے، کوئی سیاسی جماعت سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، ایک مسئلہ سیاسی درجۂ حرارت کا ہے، علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے پر ہدایت لے کر آگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجۂ حرارت اور تلخی کم ہونے تک انتخابات پُرامن نہیں ہو سکیں گے، ہدایات کے باوجود کسی فریق نے سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

مکمل یقین دہانی کروانے کیلئے تیار ہیں: وکیل PTI

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے، نام بتائیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی جب باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے، کابینہ اعلیٰ ترین انتظامی فورم ہے، جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات مؤخر بھی ہو سکتے ہیں، کچے کے آپریشن کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کر دیا، کے پی میں الیکشن کی تاریخ دے کر واپس لی گئی۔

سماعت میں وقفہ

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیا۔

سماعت دوبارہ شروع

سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ عارضی نہیں ہے، اگر کچھ علاقوں میں انتخابات کرائیں تو ایجنسیوں کے مطابق وہیں دہشت گردی کا فوکس ہو گا، الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ دیانت داری سے انتخابات کروائے، پُرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، ایجنسیوں کی طرف سے کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ تک انتظامات مکمل کر لیے جائیں گے، صاف شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے، ورکرز پارٹی فیصلے کے مطابق صاف شفاف انتخابات کے لیے وسیع اختیارات ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اداروں سے معاونت نہیں مل رہی، الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے؟ صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہو گیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آ جاتے، الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشن 6 ماہ آگے کیوں کر دیے؟ کیا اس طرح الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری پورے کرے گا؟ کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا انتخابات کرانے کا اختیار کس دن سے شروع ہوتا ہے؟ انتخابی تاریخ مقرر ہونے سے یہ اختیار شروع ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ تاریخ مقرر ہو جائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام مؤخر کیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخاباتی پروگرام تبدیل کر سکتا ہے تاریخ نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ کیا 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن کی گارنٹی ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا؟ 8 اکتوبر کی جگہ انتخابات کی تاریخ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہو سکتی؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا پولنگ کی تاریخ الیکشن پروگرام کا حصہ ہوتی ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ پولنگ کی تاریخ الیکشن شیڈول کا حصہ ہوتی ہے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ صدر کو تجویز کردہ تاریخ الیکشن کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا، جب معلوم تھا کہ 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہو سکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ حالات فروری میں بھی خراب تھے لیکن معاملے کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو صدر کو حالات سے آگاہ کرنے سے نہیں روکا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ الیکشن شیڈول پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہوا جب آج پھر عدالت میں کھڑے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر صدر تاریخ کا اعلان کر دیں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات سے انکار کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پرانا شیڈول ختم کر کے نیا شیڈول جاری نہیں کیا، الیکشن شیڈول کی بجائے الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کا جھنڈا لہرا دیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکشن 58 الیکشن کمیشن کو تاریخ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت 8 اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کا دفاع کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات کی طرح زندگی کا تحفظ بھی عوام کا بنیادی حق ہے، عدالت الیکشن کمیشن کا حکم غیر آئینی اور بد نیتی پر مبنی ہونے پر ہی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا بدنیتی کا نکتہ درخواست گزار نے اٹھایا ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ درخواست میں بدنیتی کا نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔

الیکشن کمیشن کا حکم نامہ مدد کی پکار ہے، جسٹس منیب

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ بنیادی طور پر مدد کی پکار ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ آزادنہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر تمام اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کر سکتا ہے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن حکومت پر انحصار کرتا ہے، حکومت نے بتانا ہے کہ وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پر مطمئن ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ اگر پیسے اور سیکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہو سکتے ہیں؟

’’حکومتی معاونت ملے تو 30 اپریل کو انتخابات کروا سکتے ہیں‘‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ حکومتی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کروا سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے تو عدالت کو بتاتے۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر الیکشن کمیشن حالات سے 10 سال مطمئن نہ ہو تو کیا عدالت الیکشن کروانے کا کہہ سکتی ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن حقیقت پر مبنی فیصلہ کرے گا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988ء میں بھی عدالت کے حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، 2008ء میں حالات ایسے تھے کہ کسی نے انتخابات ملتوی کرنے پر اعتراض نہیں کیا، اللّٰہ کرے کہ 2008ء والا واقعہ دوبارہ نہ ہو، بنیادی حقوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہو گئی ہے، آئین کا آرٹیکل 218-3 آرٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہو سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 218-3 شفاف منصفانہ انتخابات کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ شفاف انتخابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن شفاف نہ ہوں تو جمہوریت نہیں چلے گی۔

حکومت بتائے انتخابات کیلئے 6 ماہ کم ہیں یا نہیں؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ساز گار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے؟ چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحے کا استعمال نہ ہو، اگر معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں کہ لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں، سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں، سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا، حکومت سے پوچھتے ہیں کہ انتخابات کے لیے 6 ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں؟

اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے دلائل مکمل ہو گئے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کے پی نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ نگراں حکومت نے گورنر کے پی کو تاریخ دینے کا کیوں نہیں کہا؟

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کی معاونت کے لیے تیار ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا گورنر کے پی نے تاریخ کا اعلان کر دیا ہے؟

گورنر کے پی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو تاریخ سے آگاہ کر دیا ہے، گورنر کے پی نے 28 مئی کی تاریخ دی تھی۔

الیکشن کمیشن کے ڈی جی لاء نے کہا کہ گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ دی ہے، گورنر کا خط کل ہی موصول ہوا ہے، ہدایات کے لیے وقت دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت نے یکم مارچ کے حکم میں فوری اور جلد از جلد تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ کس بنیاد پر دی ہے؟ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن 30 اپریل کو پورے ہو رہے ہیں، پہلے ہی حکم نامے میں کہا تھا کہ گورنر تاریخ نہ دے کر آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

گورنرکے پی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کل گورنر سے ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے دلائل دینے شروع کیے تو چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ پنجاب کی نگراں حکومت کا الیکشن کی تاخیر پر کیا مؤقف ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے جواب دیا کہ الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صوبے میں پہلے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہو گا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ نگراں حکومت اپنی مدت میں توسیع کیسے کر سکتی ہے؟ اس قسم کا نکتہ نگراں حکومت کیسے اٹھا سکتی ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آئینی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، دلائل دینا میرا حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں 20 حلقوں میں انتخاب منتخب حکومت نے کروائے تھے، 20 حلقوں کے الیکشن میں کتنے واقعات ہوئے تھے جن سے انتخابات متاثر ہوئے؟

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ہر ضمنی الیکشن کے لیے نگراں حکومت لانی پڑے گی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جولائی 2022ء میں پنجاب کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے تھے، عام انتخابات میں نگراں حکومت ہونا آئینی ضرورت ہے، اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل کرنے کی بھی آئین اجازت دیتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ڈی جی لاء ارشد خان نے کہا کہ ریکارڈ کا جائزہ لے کر کل آگاہ کروں گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا پنجاب حکومت اپنی حد تک الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتی ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ پولیس اہلکار مصروف ہیں اس لیے افواج کی تعیناتی کا کہا تھا، دستیاب وسائل میں ر ہ کر معاونت کر سکتے ہیں۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت سے سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی مانگ لی اور کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

جسٹس مندوخیل کی کل کے ریمارکس پر وضاحت

دورانِ سماعت عدالتِ عظمیٰ میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کل کے ریمارکس پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہوئی ہے، میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججزکی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فیصلے کے دوسرے حصے میں ہم 4 ججز نے از خود نوٹس اور درخواستیں مسترد کی ہیں، 4 ججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟ الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی کہا کہ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوا لیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں، گزشتہ روز کے ریمارکس فیصلے کے انتظامی حصے کی حد تک تھے۔

ن لیگ، PPP اور JUI F کی فریق بننے کی درخواستیں وصول

آج سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کی فریق بننے کی درخواستیں وصول کر لیں۔

رجسٹرار آفس نے سیاسی جماعتوں کی درخواست اجازت لینے کے بعد وصول کیں۔

پارلیمان کی قانون سازی عدلیہ پر قدغن نہیں: وکیل ن لیگ

مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی عدلیہ پر قدغن نہیں ہے، ایک قانون عدلیہ پر قدغن کیسے ہو سکتا ہے؟

ان سے صحافی نے سوال کیا کہ جو مجوزہ قانون سازی ہوئی کیا اس پر توہینِ عدالت ہو سکتی ہے؟

اکرم شیخ نے جواب دیا کہ جو بل زیرِ بحث آیا اس سے کسی جج کی شان میں کمی یا توہینِ عدالت نہیں ہو سکتی، ججز اور عدلیہ کی مضبوطی کے لیے قانون بنایا گیا ہے۔

سوموٹو قانون سازی پر اعتراض نہیں ہوگا: وکیل PTI

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو سوموٹو قانون سازی پر اعتراض نہیں ہوگا۔

صحافی نے ان سے پوچھا کہ ججز کو کمیٹی میں شامل کرنے پر کیا پی ٹی آئی کو اب کوئی اعتراض ہو گا؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ دوججز کو کمیٹی میں شامل کیا، اب اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جہاں جہاں نظام کو بہتر بنانے کی بات ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں، سوموٹو اختیارات کے معاملے پر کوئی اعتراض نہیں۔

گزشتہ سماعت کا احوال

گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلدی بازی میں لکھا گیا، الیکشن ایمرجنسی لگا کر ہی ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے الیکشن فنڈز کا بندوبست کرنے کے لیے ججز سمیت سب کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے 2 ججوں کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے یکم مارچ کے فیصلے کو طے کرنے کی استدعا کر دی۔

قومی خبریں سے مزید