• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومبر 2017کا اسلام آباد کی احتساب عدالت کا منظر آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے جب میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز احتساب عدالت میں پیش ہوئے غالباََ یہ ان کی ایک سو سے اوپر ہوچکی پیشی تھی ، یہ دونوں صبح چار بجے سے قبل ہی رائے ونڈ سے احتساب عدالت میں پیشی کے لئےنکلا کرتے اور آٹھ بجے تک عدالت پہنچتے اور پیشیاں بھگتتے ،اس روز پیشی کے بعد میاں نواز شریف سے امریکہ سے آئے ایک صحافی نے بھی ملاقات کی ، جس نے میاں نواز شریف سے کہا، میاں صاحب ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ بہت زیادتی ہورہی ہے ، آپ کے خلاف درجنوں کیسز بنوا کر آپ کو ہر روز چارسو کلو میٹر کا سفرطے کرکے پیشیاں بھگتنا پڑ رہی ہیں ،اس ناانصافی سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ،لہٰذااگر آپ اجازت دیں تو ہم یہ تمام معاملات امریکی حکومت کو پیش کرسکتے ہیں ، یا پھر امریکی پارلیمنٹ میں بھی یہ معاملہ اٹھا سکتے ہیں ؟ میاں نواز شریف نے اسی وقت مذکورہ صحافی کو ایب سلوٹلی ناٹ کہتے ہوئے جواب دیا کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات ہیں انشا اللہ ہم یہیں رہ کر اپنی بے گناہی ثابت کریں گے ،یہ کہہ کمرۂ عدالت سے باہر نکل گئے تاہم یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو عالمی برادری میں اٹھانے کے خلاف تھے کہ ریاست کی بدنامی کا زریعہ نہ بن جائے ، جس وقت ان کی حکومت ختم ہوئی اس وقت میاں نواز شریف کی مقبولیت عروج پر تھی لیکن کبھی انھوں نے اس مقبولیت کا فائدہ اٹھاکر عوام کو ریاست کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی ،انھوں نے تین دفعہ اپنی حکومت کے خاتمے کا بدلہ ریاست سے لینے کی کوشش نہیں کی ، اپنی بیمار اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر گرفتاری دینے کے لئے لندن سے پاکستان پہنچے ، لیکن قوم نے کبھی انھیں ریاست مخالف گفتگو کرتے نہیں سنا ، اسٹیبلشمنٹ سے بھی اختلافات ہوئے لیکن کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بین الاقوامی سازش نہیں کی ، لیکن اب صورتِ حال بالکل مختلف رخ اختیار کر گئی ہے ،ان کو ہٹا کر عمران خان کو جس طرح ہیرو بنا کر اقتدار میں لایا گیا تھا اور جو عمران خان کو لائے تھے ان کے ساتھ جوہوا ہے وہ پاکستان کی لگ بھگ اسی سالہ تاریخ میں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا ۔ لیکن دوسری جانب عمران خان جنھیں اقتدار پلیٹ میں سجا کر دیا گیا تھا انہوں نے زبردستی اسٹیبلشمنٹ سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی اور جو باتیں وہ نہیں منوا سکے اس کی سزا نہ صرف اسٹیبلشمنٹ بلکہ ریاست کو بھی دی ، بعض دفعہ ایسا محسوس ہوا کہ خان صاحب نے ہم نہیں رہیں گے تو کسی اور کو بھی نہیں رہنے دیں گے جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی ، عمران خان کو کیوں اور کیسے نکالا گیا، عوام کے سامنے جو منظرنامہ آیا اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی کئی اتحادی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ چھوڑا ،جس سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی اور ایک جمہوری طریقے سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ،لیکن پھر عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی آڈیو لیک آئی جس میں امریکہ میں پاکستانی سفارتکار کی جانب سے آنے والے سائفر کو حکومت کے خاتمے کا جواز بنا کر ریاست پر سنگیں حملے کئے گئے ،حتی کہ ایک وقت میں امریکہ اور پاکستان کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا ، آج جو پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے قرض کے لئے ایڑیاں رگڑ رہا ہے یہ بھی ان کے امریکہ مخالف بیانیے کی وجہ سے ہی ہے ،ریاستی مفادات قربان کرنے کے بعد ان کی جماعت لاکھوں ڈالر دے کر امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے پر کام کررہی ہے اور وہاں سے اب پاکستان کے خلاف بیانات آنا بھی شروع ہوگئے ہیں ،پھر ایک منصوبے کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان ذرمبادلہ بھجوانے سے روکا گیا ہے جس سے پاکستان جانے والے سالانہ زرمبادلہ کی رقم میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے ،پھر کبھی نام لے کر عدالت کو دھمکیاں، کبھی پولیس کو دھمکیاں تو کبھی خفیہ اداروں کو دھمکیاں دی گئیں ، عوام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑوایا گیا، حساس اداروں کے سربراہان کے خلاف مظاہرے کروائے گئے، اس لڑائی میں ریاست اور عوام کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں ، ڈالر تین سو روپے تک پہنچ گیا ہے،عوام آٹا لینے کے لئے اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ،ہماری اندرونی لڑائی کے دوران ہی بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کو ہے اور ہم ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہی پاکستان کی حفاظت کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین