سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات 18 اکتوبر کو کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آئین سے متجاوز قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے اور سوموٹو کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اسمبلی کا الیکشن 14 مئی کو کرانے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس متوقع فیصلے کا پرجوش خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو فوری طور پر انتخابی مہم شروع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ اس فیصلے سے موجودہ آئینی بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ مزید شدت اختیار کرلے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے فوری طور پر وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔جس نے اُن کا فیصلہ ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ وفاقی کابینہ اور پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ چار تین کی اکثریت سے سوموٹو کیس مسترد کرچکی ہے اس لئے 3/2 ججوں کا فیصلہ قابل عمل نہیں جبکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں چار تین کے فیصلے کو ناقابل عمل اور غیرقانونی قرار دیا گیا۔ اپنے متفقہ فیصلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے جبکہ پنجاب کی نگران کابینہ سیکورٹی پلان جمع کرائے۔ وفاقی حکومت کو انتخابات کے لئے فوج رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے عملے اور دیگر وسائل کی فراہمی کی ہدایت کی گئی اور شفاف، غیرجانبدارانہ اور قانون کے مطابق انتخاب کرانے کا حکم دیا گیا۔ فنڈز مہیا نہ کئے گئے تو عدالت متعلقہ حکام کو ضروری حکم جاری کرے گی۔ جہاں تک خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخاب کا تعلق ہے تو صوبائی گورنر کے وکیل نے سوموٹو کیس میں فریق بننے سے معذرت کی تھی اس لئے اس صوبے کے الیکشن کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا یا متعلقہ فریق الگ سے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ سوموٹو نوٹس کے علاوہ اس کیس میں اسی مقصد کے لئے پاکستان تحریک انصاف نے بھی درخواستیں دے رکھی تھیں۔ الیکشن کمیشن نے جو انتخابی شیڈول معطل کردیا تھا اسے بحال کرتے ہوئے عدالت میں کمیشن کو ضرورت کے مطابق ردوبدل کی اجازت دی ہے جس کے مطابق نئی تاریخوں کا فیصلہ کیا جائے گا تاہم پولنگ کی تاریخ 14 مئی ہوگی۔ امیدواروں کی حتمی فہرست 19 مارچ تک جاری کردی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر حکومتی رہنماؤں کے تحفظات اور گزشتہ موقف کی روشنی میں مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پی ڈی ایم قیادت نے مزاحمتی رویہ اختیار کیا تو اس سے عدالتی بحران مزید سنگین ہوگا اور ملک میں انتشار اور تقسیم کی صورت پیدا ہوگی۔ خود مسلم لیگ ن کے رہنما بھی کہتے رہے ہیں کہ وہ ہر وقت الیکشن کے لئے تیار ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بینچ کے فیصلے کی مزاحمت کریں۔ جہاں تک ایک ہی روز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی بات ہے تو منطقی طور پر یہی درست راستہ ہے مگر زمینی حقائق کی بنا پر اس پر عمل نہ ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کئی ممالک میں مختلف اسمبلیوں کے انتخابات مختلف اوقات میں ہوتے آئے ہیں۔ پاکستان میں اس سے پہلے اگر ایسا نہیں ہوا اور اب ہورہا ہے تو اس حوالے سے عدالتی فیصلہ حرف آخر ہے۔ لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک جن مسائل سے دوچار ہے اس کے پیش نظر معاملات بگڑتے دکھائی دیتے ہیں کوشش ہونی چاہئے اور یہ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ حالات کو معمول پر رکھیں اور ایسی صورتحال نہ پیدا ہونے دیں جس سے قوم میں انتشار اور افتراق کو ہوا ملے۔