• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے سب سے بڑے متصل نہری علاقے (43ملین ایکڑ) اور زیر زمین پانی کے وسیع ذخائر سے مالا مال ایک زرعی ملک، جس میں تقریباً 21 ملین ہیکٹر اراضی زیر کاشت ہے، نہ صرف اس بھرپور صلاحیت سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں رہا بلکہ حقیقت میں گزشتہ دوعشروں سے اس شعبے میں جمود کا سامنا ہے۔ اندازے بتاتے ہیں کہ آبپاشی کے نظام سے پیداوار کی قدر، اگر مناسب طریقے سے انتظام کیا جائے تو، موجودہ 70بلین ڈالر سے بڑھ کر 200بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اتنی سکت رکھنے کے باوجود پاکستان اپنےقلیل زرمبادلہ میں سے تقریباً 10 بلین ڈالر مالیت کی کپاس، گندم، چینی، خوردنی تیل، دودھ کا پاؤڈر، دالیں درآمد کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے۔ صرف ایک تناظر میں دیکھا جائے تو 1960اور 2000کے درمیان زرعی شعبے نے 4فیصد سالانہ کی طویل المدتی شرح نمو برقرار رکھی۔ 1950میں 30 ملین کی آبادی والا ملک صرف 3ملین ٹن گندم پیدا کر سکتا تھا اور اسے اپنی آبادی کو کھانا کھلانے کیلئے امریکی حکومت کی پی ایل480 درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ 2020تک پیداوار 27.5ملین ٹن تک پہنچ چکی تھی اور ملک 220ملین لوگوں کی غذائی ضروریات پورا کر رہا تھا بلکہ جس سال فصل اچھی ہوجائے تو برآمد کرلیتا تھا۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ 1960سے 1989میں زراعت کی ترقی کی شرح 5فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔ 2004سے 2006 میں مختصر مدت کیلئے 6فیصد سے زیادہ۔ 2000کے بعد یہ مویشیوں کی پولٹری کی تیز رفتار ترقی ہے، اور ڈیری جو بنیادی محرک ہے کی طرف توجہ ہوئی جب کہ فصلیں پیچھے رہ گئی ہیں۔ سب سے زیادہ حالیہ عرصہ 2007سے لے کر 2022تک ایک مایوس کن ریکارڈ ظاہر کرتا ہے جو اوسطاً 2فیصد ہے۔ یعنی اس کی شرح نمو آبادی میں اضافے سے بھی کم ہے ۔ پہلے ساٹھ برسوں میں فی کس خوراک کی دستیابی میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ اناج کی فصل کی پیداوار میں اضافہ آبادی کی شرح سے زیادہ تھا۔ گزشتہ چند برسوں میں، گھریلو پیداوار شاید ہی بڑھتی ہوئی آبادی کی کھپت کے مطابق چل رہی ہے اور سلئے درآمدات کا سہارا لے رہی ہے۔ پاکستان کے غذائی تجارتی توازن میں مالی سال 2022میں3.6بلین ڈالر کا خسارہ تھا۔ سیلاب، اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ، شرح مبادلہ میں کمی، گھریلو افراط زر، بڑھتی ہوئی آبادی اور غذائی اجناس کی رُکتی ہوئی پیداوار نے غذائی عدم تحفظ کو بڑھا دیا ہے۔ گندم اور چاول کی اعلیٰ ملکی پیداوار سے غذائی اجناس سستی ہوں گی اور ان کی رسدمیں بہتری آئے گی۔ سرکاری خریداری اور پیداواری قیمت پرسپورٹ اسکیموں نے بھی آمدنی کے فرق کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ بڑے کسانوں کو ترجیحی سلوک اور سبسڈی سے فائدہ ملتا ہے۔ گندم کی اوسط پیداوار اگر 1965سے 1995 تک کی مدت کی شرح سے بڑھی ہوتی تو 2022میں پیداوار 40ملین ٹن تک پہنچ جاتی ۔صارفین کے لئے قیمتیں مستحکم ہوتیں، گندم پر مبنی مصنوعات سے زیادہ آمدنی ممکن ہوتی اور بین الاقوامی تجارت سے زرمبادلہ کمایا جاسکتا ۔2000اور پھر 2000کی دہائی کے وسط تک جب زراعت کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا تھا، پاکستان کے دیہی علاقوں میں روزگار کی شرح 94سے 98 فیصد کے درمیان تھی۔ جب زرعی پیداواراور دیہی روزگار میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے تو براہ راست فارم اور ذیلی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔

پاکستان کے ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ جب بھی زرعی ترقی کی شرح 4.5-5.0 فیصد کی حد سے زیادہ تھی تو آمدنی کی تقسیم اور غربت کی شرح میں مثبت تبدیلیاں ریکارڈ کی گئیں۔ اس طرح ذیل میں بتائی گئی زرعی شعبے کیلئےمجوزہ اعلیٰ نمو کی حکمت عملی، اگر دیانتداری سے لاگو کی جائے تو بیشتر مسائل کو حل کرنے اور آبادیاتی، ٹیکنالوجی اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے تناظر میں پاکستان کی مستقبل کی ترقی کیلئےرہنمائی کرنے کے قابل ہونی چاہئے۔(جاری ہے)

تازہ ترین