• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستانی قوم کیلئے فخر کا دن ہے۔ آج سے 50سال پہلے 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور کیا تھا ، جس کی صدر مملکت نے 14اپریل 1973 ء کو توثیق کر دی تھی ۔ آج 1973ء کے دستور نے اپنی سلور جوبلی مکمل کر لی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 2023ء کو اس دستور کی سلور جوبلی کا سال قرار دیا گیا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ آج اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے ، جس کو سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’ پاکستان آج ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ ‘‘

اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا 1973 ء کے دستور میں ایسے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے ؟ دستور یا آئین کسی بھی ریاست اور اس کے عوام کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ( سوشل کنٹریکٹ ) ہوتا ہے ، جس کی پاسداری ریاستی اداروں اور عوام پر لازم ہوتی ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ریاستی اداروں کی طرف سے نہ صرف آئین کی پاسداری نہیں کی گئی بلکہ کئی مرتبہ آئین کو پامال اور معطل کیا گیا ۔ دو فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے 1973ء کے آئین کو معطل کرنے کے قابل مذمت اقدامات کئے ۔ ان آمروں نے آئین کا حلیہ بگاڑ نے کیلئے پارلیمنٹ کو بھی استعمال کیا ۔ آمروں نے سیاسی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی مرضی کی پارلیمنٹس بنائیں ، جنہوں نے ایسی ترامیم کیں ، جن کے ذریعے 1973 ء کے دستور کی بنیادی اسکیم کو تباہ کیا گیا اور اس کی روح کو مسخ کیا گیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آمروں کی بنائی گئی پارلیمنٹس بھی آئین پر حملہ آور ہوئیں تو غلط نہ ہو گا ۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا کردار بھی اس حوالے سے قابل رشک نہیں ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے مختلف فیصلوں میں آئین کی ایسی تشریح کی ، جو آئین کی بنیادی روح کے منافی تھی ۔ صرف یہی نہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ نے ’’ جوڈیشل ایکٹیوزم‘‘ کے ذریعے فوجی آمروں کی طرح اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا ۔ بعض مواقع پر تو ’’ جوڈیشل کو ‘‘ یعنی عدالتی بغاوت برپا کی گئی ۔ بعض اوقات تو انتظامیہ یعنی حکومتوں کی طرف سے بھی ماورائے آئین اقدامات کئے گئے ۔ اس طرح ریاستی اداروں کی طرف سے اس دستور یعنی 1973ء کے عمرانی معاہدے پر چہار اطراف سے حملے ہوئے ، جو آج تک جاری ہیں ۔ اگر ان حملوں کا دفاع صرف حقیقی جمہوری جدوجہد سے بننے والی پارلیمنٹس نے کیا اور آئین کی بحالی اور اس میں اس کی بنیادی روح کے مطابق بہتری لانے کے لئے ایسی ترامیم کیں ، جن کے ذریعے ان حملوں کے خلاف (Deterrence ) پیدا کی ۔ 18ویں آئینی ترمیم اس کی بہترین مثال ہے ، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ 1973ء کے دستور میں اپنے دفاع اور بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے اور پاکستان کے عوام کا اجتماعی شعور اس کا محافظ ہے۔

اس کے باوجود بعض حلقوں کی طرف سے نئے عمرانی معاہدے ( نیو سوشل کنٹریکٹ ) کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ یعنی ان کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو نیا دستور دیا جائے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اگلے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ، جس کے ذریعےسارے اختیارات فوج سے سیاسی اداروں کو منتقل ہو سکیں ۔ ایسی بات صرف عمران خان کی طرف سے نہیں کی گئی بلکہ اور بھی بہت سے لوگوں نے یہ بات کی ہے ۔ ایک زمانے میں شہید محترمہ بے نظیر کی طرف سے بھی نئے عمرانی معاہدے کی بات کی گئی تھی ۔ وہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ فوج ، عدلیہ ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے اختیارات اور ان کی حدود کا ازسر نو تعین کیا جائے تاکہ یہ ریاستی ادارے اپنے اختیارات اور حدود سے تجاوز نہ کر سکیں ۔ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کی دیگر قیادت نے 1973ء کے دستور کی جگہ بالکل نیا دستور لانے یا 1973 ء کی بنیادی اسکیم کو ختم کرنے کی بات کبھی نہیں کی ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ اس اسکیم کو مضبوط بنایا ۔ دستور کے وفاقی پارلیمان کے بنیادی جوہر کو مزید نکھارا اور دستور پر حملوں کے خلاف ڈیٹرنس پیدا کیا۔

عمران خان اگرچہ نئے عمرانی معاہدے کی بات کر رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ نئے نئے صوبے بنانے کے بھی حامی ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو یہ 1973ء کے دستور کی بنیادی اسکیم اور روح کے مطابق ہے ۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور پاکستان کی وفاقی اکائیاں 1973ء کے دستور پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ 18ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے وہ زیادہ مطمئن ہوئی ہیں ۔ 18ویں آئینی ترمیم رول بیک کرنے سے وفاق پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ جہاں تک نئے صوبوں کے قیام کی بات ہے ، اس حوالے سے بھی 1973 ء کے دستور میں دی گئی اسکیم کو مدنظر رکھنا چاہئے۔

لہٰذا نئے صوبے بنانے کیلئے ایسا عظیم قومی مکالمہ کیا جائے اور ایسی آئینی اسکیم دی جائے ، جو فاقی اکائیوں کیلئے قابل قبول ہو ۔ جہاں تک عمران خان کی یہ بات کہ سارے اختیارات فوج سے سیاسی اداروں کو منتقل ہوں ، اس کی حمایت بنیادی جمہوری دھارے میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں ۔ صرف فوج کو ہی نہیں بلکہ عدلیہ کو بھی اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے سے روکنے کیلئےموجودہ آئینی اسکیم کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

میرے خیال میں کسی نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ 1973ء کے دستور پر حملوں کو روکنے کیلئے مزیدڈیٹرنس کی ضرورت ہے ۔ نئے عمرانی معاہدے کے الفاظ ہی استعمال نہیں کرنے چاہئیں ۔ سیاست دانوں کو نئے میثاق جمہوریت ( نیو چارٹر آف ڈیموکریسی) کی ضرورت ہے ۔ آئین کوئی جامد چیز نہیں ہے ۔ اس میں وقت کے مطابق تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ 1973ء کے دستور میں نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد پر ترامیم ہونی چاہئیں لیکن 1973ء کے دستور کی بنیادی روح برقرار رہے ۔ 1973ء کا دستور پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے ۔ اس کی جگہ بالکل نیا دستور بنانا بہت مشکل ہو گا کیونکہ اس پر اتفاق ہی نہیں ہو سکے گا ۔ 1973ء کے بنیادی دستور سے متصادم بالکل نیا دستور پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرناک ہوگا۔

تازہ ترین