• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

22 رمضان المبارک کو دو سال قبل 2021 میں والد صاحب رحلت فرما گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ا ن کی یادیں آج بھی ذہن میں تروتازہ ہیں۔وہ روز صبح سویرے آٹھ بجے سے پہلے تیار ہو کر دفتر جا نے کیلئے بے تاب رہتے، عمر کے آخری حصے میں بھی جب کہ ملک میں کورونا کی وبا شدید تھی وہ دفتر جا نے کیلئے ہمیشہ بے تاب ہوتے اپنے کام سے انہیں جنوں کی حد تک عشق تھا۔رات کو جلد سو جا تے اور صبح نماز فجر سے پہلے قرآن مجید کی تلا وت ان کی زندگی کا معمول تھا۔ ساری زندگی میں نےانہیں سنت رسول اور اللہ کے احکام کی پاسداری کر تے ہوئے ہی دیکھا۔ والد صاحب مرحوم نے ہمیشہ عاجزی و انکساری کو اپنائے رکھا۔ دنیا وی زندگی کے معاملات میں ان کی دلچسپی ہمیشہ سے نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کا اللہ پر توکل بہت زیا دہ تھا اپنی وفات سے قبل انہیں جب اچانک اسپتال لے جا نا پڑا تو وہ ایمر جنسی وارڈ میں بھی سارا د ن یہی کہتے رہے کہ یا اللہ رحمت کا مہینہ ہے رحم کر تکلیف کے آثار ان کے چہرے پرعیاں نہ ہوئے، اسی طرح سارادن اسپتال میں رہنے کے بعد شام کو روزہ افطارکرنے کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انہتائی دردمندانہ الفاظ میں کہا کہ میں نے گھر جانا ہے۔ان کے یہ الفاظ آج بھی میرے دل میں تیر کی طرح لگتے ہیں۔ بیماری کی شدت اور بے بسی کا عالم مگر زبان پر اللہ کی رحمت کے الفاظ سن کر میں خود حیران تھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہے۔ مگر اللہ کا ان پر خاص کرم تھا۔ اپنی ساٹھ سالہ صحافتی زندگی میں دوستوں اور عام جا ننے والوں کیلئے ان کا کام کر وانے والے پاطفیل نے اپنے لئے کسی کو فون کر نے کی زحمت نہ کی کہ رمضان کا مہینہ ہے کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہئے۔ روزنامہ کوہستان سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اور اختتام روزنامہ جنگ ،ایک طویل سفر مگر ہمت اور عزم واستقلال سے انہوں نے یہ سفر بخوبی طے کیا ۔ انہیں جا ننے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ دنیاوی دولت کی لالچ، عہدوں کی حرص یا تمنا طفیل صاحب کی زندگی کا کبھی مقصد نہیں رہا ۔اداریہ نویسی میں کمال مہارت رکھنے کے باوجود وہ اپنے ہم عصروں میں انتہائی مقبول تھے۔ جب بھی کبھی کسی موقع پر والد صاحب اس وقت کے نامور اور صاحب طرز صحافیوں جن میں ارشاد احمد حقانی،منو بھائی ،عباس اطہر، عبدالقادر حسن، سب کو اللہ غریق رحمت فرمائے اور دور حاضر میں مجیب الرحمن شامی صاحب اللہ انہیں صحت والی لمبی عمر زندگی عطا فرمائے، بیٹھتے تو ایک طالب علم کی حیثیت سے سیکھنے کے انداز میں حالانکہ ان کے اداریہ نویسی کے طرز

تحر یر کو ایک خاص پذیرائی حاصل تھی مگر وہ اس بات پر ہمیشہ مصر رہتے کہ میں ایک عام طالب علم ہوں۔ ابھی بہت کچھ سیکھنا با قی ہے۔ یہی کمال انہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو بھی سکھا نے کی کوشش کی اور درس بھی یہی دیا کہ اپنے علم پر کبھی غرور نہیں کر نا۔ ورنہ انسانی تحر یر بے اثر ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کی تشکیل کی تواس کا نظام بھی ساتھ ہی دے دیا تھا۔ اسیلئے کہا جا تا کہ یہ دنیا فانی ہے۔ جو بھی اس دنیا میں آیا اس نے جا نا بھی لا زمی ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اس پر کامل ایمان بھی رکھتے ہیں کہ لوٹ کر سب نے اللہ کی جانب ہی جا نا ہے۔ جہاں ہمارے اعمال کے مطابق جو ہم نے دنیا میں کئےہوئے ہوں گے، انکا بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ اس مبارک مہینے میں یہی دعا ہے کہ اللہ ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے ہمیں اچھے اعمال کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس فانی دنیا سے چونکہ ہر ایک نے واپس جانا تو ہے مگر جا نے والوں کا غم اور ان کی یادیں بھی ایک حقیقت ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتااور یہ غم انسان کو اپنی زندگی کے اختتام تک لا زمی رہتا ہے۔ میں اپنے والد کو جب بھی ان کی والدہ مرحومہ کی قبر پر لے جاتا تو وہ دعا مغفرت پڑھتے ہوئے شدت جذبات سے نہ صرف غمگین ہو جا تے بلکہ ان کی آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہو جاتے یہی کیفیت اب میرے ساتھ اور دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ بھی ہے۔اللہ پاک ہم سب کو حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے کہ ہم اپنے پیاروں کے جا نے کا غم برداشت کر نے کے قابل ہو سکیں۔ میری تمام پڑھنے والوں یہ سے یہ التجا ہے کہ اگر میرےوالد محترم سے کسی کو کوئی دکھ پہنچا ہویا ان کی دل آزاری ہوئی ہو تو براہ نوازش انہیں معاف کر کے ان کی مغفرت کیلئےدعائے خیر ضرور کر دیں اللہ آپ کو اس کا یقیناً بہترین اجر دے گا۔

تازہ ترین