• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ادھوری پارلیمنٹ اپنی بالادستی دکھانے کے لئے ہنگامی اجلاس بلارہی ہے۔

اپنے اپنے علاقے کے مسائل پر آواز بلند کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر قراردادیں منظور کروائی جارہی ہیں۔

پی ڈی ایم کی رکن جماعتوں سے کوئی یہ سوال نہیں کررہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے ٹکرانے سے ان 13جماعتوں کو کیا حاصل ہوگا۔

پنجاب کے پی کے میں انتخابات 90روز کے اندر کروانے کے لئے آئین میں حد،پارلیمنٹ کے ارکان نے ہی متعین کی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور معززجج صاحبان تو پارلیمنٹ کی منظور کردہ حد کو ہی تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔ اس حکم کی مخالفت کرکے وزیر اعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اپنے ہی طے کردہ آئینی آرٹیکلز کی پابندی نہیں کررہے ۔ الیکشن تو ایک روز ہونے ہیں۔ اس میں کسی نہ کسی کی شکست ہوگی ۔ ایسے ہنگامی اجلاس منعقد کرکے، تقریروں میں توانائی ختم کرکے ہوا عمران خان کے حق میں ہی ہموار ہورہی ہے۔ پنجاب کے 12کروڑ سے زیادہ عوام میں ہر روز پی ڈی ایم یہ احساس پختہ کروارہی ہے کہ ان کے حقِ رائے دہی میں صرف اور صرف پی ڈی ایم حائل ہے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں سے ملنے کا دن۔ ساری نسلیں مل کر شب قدر ڈھونڈ رہی ہیں۔ اسلام کے نام پر رمضان میں حاصل کی جانے والی مملکت میں رمضان کی رحمتوں۔ مغفرتوں۔ برکتوں۔ نجات کے دن بھی عدالتوں کی سماعتوں۔ ضمانتوں کی درخواستوں۔ ادھوری قومی اسمبلی کے اجلاسوں۔ وضاحتی بیانوں۔ اداروں کے درمیان تصادم میں گزر رہے ہیں۔ رحمتیں نازل ہورہی ہیں مگر ہماری سیاسی اشرافیہ رحمتوں برکتوں سے بے نیاز ہے۔ وہ کسی مسجد کسی با برکت تقریب۔ کسی تراویح۔ کسی شبینے میں خالق کے حضور جھکی نظر نہیں آرہی ۔ آخری عشرے کی راتیں بھی مقتدروں کے چہرے فق دیکھ رہی ہیں۔

پاکستان کتنی ترقی کرگیا ہے۔ کس مقروض ملک میں اتنے ٹی وی چینل ہوں گے۔ سارے چینل سارے اینکر پرسن 24گھنٹے یوں دکھاتے ہیں جیسے شاہراہ دستور کے علاوہ ملک میں کہیں کچھ نہیں ہورہا ۔ 200سے زیادہ یونیورسٹیوں میں تحقیق جاری ہے۔ ہزاروں کالجوں میں اساتذہ اور شاگرد علم کی فصلیں کاٹ رہے ہیں۔ لاکھوں پرائمری اسکولوں میں واہگہ سے گوادر تک بچے بچیاں حرف و معانی سے روشناس ہورہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی کمپنیاں حضرت انسان کی تازہ ترین ایجادات سے عوام کی زندگی میں تیز رفتاری لارہی ہیں۔ جدید ترین طبّی آلات سے مزین اسپتال مفت علاج کررہے ہیں۔ مگر ہمارا میڈیا 22 کروڑ میں سے محض ایک ڈیڑھ سو پاکستانیوں کی نقل و حرکت دکھاتا ہے۔ اشرافیہ تقسیم ہوچکی ہے۔ وکلا بٹ چکے ہیں ۔چینل بھی کسی نہ کسی کی زلف کے اسیر ہیں۔ حقیقی خبر جاننے کیلئےسوشل میڈیا کو کھنگالنا پڑتا ہے۔ صداقت کو اپنی آبرو بچانے کے لئےکوئی چار دیواری نہیں مل رہی۔ بہت سے بزرگ اپنی زندگی بھر کی ریاضتیں پارٹی سربراہ کی دہلیز پر قربان کررہے ہیں۔

22کروڑ جفاکش با شعور لوگوں کا ملک، 60فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی، انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت والی سر زمین، چین کو اقوام متحدہ میں لے جانے والی، ایٹمی طاقت والی مملکت اندرونی محاذ آرائی کی وجہ سے اب خطّے کی سیاست میں کوئی مقام رکھتی ہے نہ ایشیا میں۔ عالمی سطح پر اب ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ ادھر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہمارے داخلی انتشار سے موقع مل گیا ہے کہ جی 20تنظیم کے ایک سالہ صدارتی دَور میں جی 20 کے سیاحت ورکنگ گروپ اور نوجوانوں کے گروپ کی میٹنگ اگلے مہینے مئی میں سری نگر میں منعقد کررہا ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ جی 20 کے ارکان کی اکثریت شرکت کے لئےرضا مند ہے۔کیا پاکستان اس وقت ایسی پوزیشن میں ہے کہ جی 20 کے ارکان پر زور ڈال سکے کہ وہ سری نگر میٹنگ کا بائیکاٹ کریں۔ جی 20 امیر ملکوں کا گروپ ہے۔ جس میں ارجنٹائن۔ آسٹریلیا۔ برازیل۔ کینیڈا۔ انڈونیشیا۔ اٹلی۔ جاپان۔ میکسیکو۔ روس۔ سعودی عرب۔ جنوبی افریقہ۔ جنوبی کوریا۔ ترکی۔ برطانیہ۔ امریکہ۔ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ اس ایک میٹنگ کے ذریعے بھارت ان ممالک سے یہ تسلیم کروالے گا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی یہ عالمی حیثیت اپنی جگہ۔ ہم تو اپنے آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت کو مالی طور پر کمزور کررہے ہیں۔ ہماری سیاسی قوتیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ کسی کے پاس کوئی تدبر، بصیرت اور وژن نہیں ہے۔ نئے سیاستدان عمران خان کی روز افزوں مقبولیت اپنی جگہ کیوں کہ بقول رانا ثناء اللہ اورمریم نواز۔ وہ تو فتنہ ہے، جس کا سر کچلنا ناگزیر ہے ۔لیکن اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں تو بہت ۔ تجربہ کار ہیں۔ چالیس پچاس سال سے میدان میں ہیں۔ اجتماعی دانش سے تو بڑے بڑے تنازعات طے ہوجاتے ہیں۔ قومیں خوشحالی کے راستے پر چل پڑتی ہیں۔ ان کے پاس قومی اسمبلی ہے۔ سینیٹ ہے اور سندھ ،بلوچستان کی منتخب حکومتیں ہیں۔ پنجاب ،کے پی کے کی نگراں حکومتیں بھی ان کی ہیں۔ اتنی طاقت، مالی وسائل اور جہاندیدہ ذہنوں کے باوجود اپریل 2022 سے اپریل 2023 کے دوران کوئی ایسا اقدام جس سے مہنگائی رک گئی ہو جس سے ڈالر کی پرواز تھم گئی ہو۔ جس سے دنیا کو پاکستان کے وجود کا احساس ہوا ہو۔

سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی معاشرہ بہت آگے نکل چکا ہے۔

ہمارے سیاستدانوں بالخصوص پی ڈی ایم 90کی دہائی میں ہی رکی ہوئی ہے۔ طاقت کے مراکز تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ وہ اپنی طاقت کا اظہار اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ ویسے ہی مکمل نہیں ہے۔ اپنی بالادستی کے لئے پہلے تو اسے خود نمائندہ ہونا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ پی ٹی آئی کے ارکان کیلئے سپریم کورٹ اجلاس میں شامل کرانے کا فیصلہ دے۔ حکومت خود ان ارکان کو واپس آنے دے۔ پی ڈی ایم کو اب یہ باور کرلینا چاہئے کہ ان کا بیانیہ عوام میں مقبول نہیں ہورہا ۔ معاملہ طے صرف اور صرف الیکشن سے ہوگا۔ اگر کچھ عوامی حمایت حاصل کرنا ہے ۔ آئندہ انتخابات میں کچھ سیٹیں اپنے نام کرنی ہیں۔ تو راستہ یہی ہے کہ قومی اسمبلی کو بھی تحلیل کردیں الیکشن پنجاب، کے پی کے، قومی اسمبلی ، بلوچستان، سندھ ایک ساتھ کروادیں۔ چند ماہ کی ہی بات ہے۔ لیکن اس دوران ہر 24گھنٹے میں حکومت کی حمایت کم ہورہی ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ حالات اگر یونہی آگے بڑھتے رہے تو طاقت کے سارے مراکز بے اثر ہوجائیں گے۔ تاریخ سے با خبر لوگ جان رہے ہیں کہ آخری قہقہہ اب کس کا ہونے والا ہے۔

تازہ ترین