سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14 مئی کا حکم دے چکے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس جاری کر دیا،سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر اس 3 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کمرۂ عدالت میں موجود ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزارتِ دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارتِ دفاع ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا کر سکتی ہے؟ وزارتِ دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور وزارتِ دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا کہ وسائل دیں، الیکشن کروا لیں گے، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر سنا ہے کہ وزراء یہ بھی کہتے ہیں کہ اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے قرآنی آیت سے سماعت کا آغاز کیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کے بھی نتائج ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے فنڈزکی فراہمی سے متعلق دوبارہ جواب طلب کر لیا۔
’’انتخابی فنڈز فراہم نہ کیے تو شدید سنگین نتائج آ سکتے ہیں‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اگر انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو اس کے شدید سنگین نتائج آ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مولا ہمیں ہمت دے کہ صحیح فیصلے کریں اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرے اور جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے، معاملہ بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ پڑھیں۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کو شکست ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 2013ء میں کٹوتی کی تحریکیں منظوری ہو چکی ہیں، موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کے لیے وقت تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارتِ خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، وزارتِ خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی فنڈز کے معاملے میں قرار داد منظور کر چکی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا کیس یہ ہے کہ حکومت ذمے داریوں کی ادائیگی میں سنجیدہ ہے لیکن پارلیمنٹ نے منع کر دیا؟ وزیرِ اعظم کو انتخابات کے لیے فنڈز کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کی اکثریت کو اعتماد میں لینا تھا، وزیرِ اعظم ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ حکومت آئینی عمل کے لیے فنڈز کی فراہمی پر مثبت جواب دے گی، سیکیورٹی صورتِ حال سے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے، الیکشن کمیشن کو کیوں لگتا ہے کہ ماضی سے اب صورتِ حال بہت خراب ہے؟ ماضی میں دہشت گردی کے دوران بھی الیکشن ہوا، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے سال بھی انتخابات ہوئے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں، معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ ہمارا نکتۂ نظر سمجھ چکے ہیں، اس سے پہلے انتظامی امور قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں، غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے، کون گارنٹی دے گا کہ 8 اکتوبر کو حالات پُر امن ہوں گے؟ وزارتِ دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اکتوبر تک الیکشن نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشت گردی ملک میں 1992ء سے جاری ہے، 1987ء، 1991ء، 2002ء، 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں الیکشن ہوئے، 2013ء میں بھی دہشت گردی تھی، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سیکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، اب 2 صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ وزارتِ دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت محض اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ برطانیہ میں ورچوئل جنگ کی صورتِ حال میں بھی ایک دن انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی، کیا آئین کہیں پر یہ مینڈیٹ دیتا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اگلے سال انتخابات کرائے جائیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکیورٹی آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی تو ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، 2001ء سے سیکیورٹی ادارے بارڈرز پر مصروف ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشنز سے متعلق کیس کی سماعت 27 مارچ کو شروع ہوئی، ہمیں 27 مارچ سے میتھ میٹکس میں الجھایا گیا، تین چار کا تناسب اور بینچ چھوٹا بنے یا بڑا کا معاملہ لایا گیا، بینچ ٹوٹے اور سیاسی جماعتوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا، اس وقت ہمیں یہ سب وجوہات نہیں بتائی گئیں، اٹارنی جنرل صاحب! آپ کے توسط سے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہمیں بریفنگ دی، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکریٹری دفاع بھی بریفنگ میں موجود تھے، عسکری حکام کی بریفنگ بہت زبردست تھی، بریفنگ سے پتہ چلا کہ اصل صورتِ حال کیا ہے، جب کیس چل رہا تھا تب کوئی ہمیں بریفنگ دینے نہ آیا، ٌسپریم کورٹ فیصلہ دے چکی اس کے بعد بریفنگ دی گئی، اب کیس کا فیصلہ آ چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے، اب آگے بڑھنا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فنڈز سے متعلق عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ جو پیغام آپ دینا چاہ رہے ہیں وہ میں سمجھ گیا ہوں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہو جائیں گے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوج نے انتخابات کے مقررہ وقت کےمطابق آپریشنز شروع کیے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کو آتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے پھر استفسار کیا کہ کیا 2018ء کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟ کیا آئین بالادست نہیں ہے؟ افواج نے ملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواجِ پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور وزارتِ دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروا لیں گے، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے، وزارتِ دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارتِ دفاع ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا کر سکتی ہے؟ وزارتِ دفاع کی درخواست ناقابلِ سماعت ہے، ٹی وی پر سنا ہے کہ وزراء یہ بھی کہتے ہیں کہ اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
اٹارنی جنرل نے سیاسی جماعتوں کے مذاکرات تک عدالت سے مہلت مانگ لی اور کہا کہ کل بلاول بھٹو اور آج وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی، کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہوں، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، بلاول بھٹو آج مولانا فضل الرحمٰن سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید انتخابات کے لیے اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں، امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے، دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، آئینی عمل آگے چلتا رہنا چاہیے، عید کی 5 چھٹیاں آ رہی ہیں، یہ معاملہ مزید طویل نہیں ہونا چاہیے، عید کی 5 چھٹیاں بھی زیادہ معلوم ہو رہی تھیں لیکن ساتھی ججز نے کہا کہ پُرسکون ہونے کے لیے یہ ضروری ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جماعتِ اسلامی سمیت تمام جماعتیں سیاسی طریقے سے مسائل کا حل چاہتی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے بھی درخواست دائر کی ہے۔
انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست میں وکیل شاہ خاور روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہو سکا، کبھی دوسری وجہ سے، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ضروری ہے، لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں، عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثر انداز ہوں گی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جب بحث ہو رہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل پتہ نہیں کس کے کہنے پر 4/3 پر دلائل دیتے رہے، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا؟
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہو جائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جا سکتی، یک طرفہ کچھ نہیں ہو سکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہو گا، انتخابات کے لیے 90 دن کی میعاد 14 اپریل کو گزر چکی، آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کرانے لازم ہیں، آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے جس میں فیصلے عوام کریں گے، آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں، عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا تھا، حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے، ایک دن انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں، سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں، نگراں حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری سے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات چاہتی ہے؟
فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ سراج الحق عمران خان سے ملاقات کے لیے آئے جس کے فوری بعد علی زیدی کو اٹھا لیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملک و قوم میں تکلیف کے عالم کو دیکھا جائے، اگر تحریکِ انصاف نے کوئی کمیٹی بنائی ہے تو بتایا جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے فیصل چوہدری سے کہا کہ اپنے مؤکل سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
چیف جسٹس نے فیصل چوہدری سے کہا کہ آپ کو بیٹھے دیکھ کر ویسے ہی بلا لیا۔
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ جماعتِ اسلامی سمیت سیاسی جماعتوں کو نوٹس کر دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس کر دیتے ہیں، عید کے بعد جلد کیس سنیں گے۔
سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بتائے کہ جماعتِ اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے نامزد قائدین پیش ہوں۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، آپ سے بہت امید ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارٹی قیادت سے ہدایات لے کرعدالت کو آگاہ کریں، ممکن ہے کہ عدالت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو طلب کرے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی نے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، وزیرِ داخلہ ہر گھنٹے بعد عدالت کو دھمکیاں دیتا ہے، وزیرِ داخلہ کہتا ہے جو مرضی کر لیں 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14 مئی کا حکم دے چکے ہیں، کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں؟ سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہو سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دونوں فریقین کو سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزارتِ دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانےکی درخواست سماعت کے لیےمقرر کر دی۔
سپریم کورٹ میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے 2 اور درخواستیں بھی دائرکر دی گئیں۔
ایک ساتھ الیکشن کرانے کی ایک درخواست شہری محمد عارف نے جبکہ دوسری سردار کاشف خان نے دائر کی۔
سردار کاشف خان کی آئینی درخواست ایڈووکیٹ شاہ خاور کی وساطت سے دائر کی گئی۔
سپریم کورٹ میں انتخابات ایک ساتھ کرانےکی درخواست پر سماعت کے معاملے پر وزارتِ دفاع کی متفرق درخواست کو رجسٹریشن نمبر الاٹ کر دیا گیا۔
وزارتِ دفاع کی درخواست کو نمبر 2773 الاٹ کیا گیا، رولز کے مطابق درخواست پر سماعت سے قبل رجسٹریشن نمبر الاٹ کرنا لازمی ہے۔
ایک ساتھ انتخابات کے لیے دائر سردار کاشف خان کی آئینی درخواست کو 9/2023 نمبر الاٹ کیا گیا۔