(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارے پیش نظرسوال یہ ہے:88 فیصد کسان جو ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبہ رکھتے ہیں اورکل زیر کاشت رقبے کے 45فیصد کو کاشت کرتے ہیں ، کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے ۔ زراعت کے جدید طریقے اپنانے والے بڑے کاشت کاروں (جن کا رقبہ پچاس ایکڑ سے زیادہ ہے) کی پیداوار چھوٹے کسانوں سے نو گنا اور درمیانے کسانوں (جن کارقبہ ساڑھے بارہ سے پچاس ایکڑ کے درمیان ہے) سے چار گنا زیادہ ہے ۔کھیتوں اور لائیواسٹاک کی اوسط قومی پیداوار بڑھانے کیلئے پیداوار میں یہ فرق کم کیا جاناضروری ہے ۔
ماضی کا تجربہ اور کئے گئے تجربات سے شہادت ملتی ہے جس کی بنیاد پر زراعت کے شعبے میں تبدیلی کی جاسکتی ہے ۔ تاہم اس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان انتہائی تعاون اور ہم آہنگی کی فضا درکار ہے ۔ یہ اسٹیک ہولڈر وفاقی اور صوبائی حکومتیں، تحقیقاتی ادارے اور جامعات، نجی شعبہ میں کام کرنے والی کمپنیاں ، کمرشل بینک، مشینری سروس فراہم کرنے والے ادارے، مارکیٹنگ اور پراسیسنگ کرنے والی کمپنیاں ہیں ۔ بدقسمتی سے اس ضمن میں ماضی کا ریکارڈ متاثر کن نہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے خوراک ، پانی اور توانائی میں کمی کا خطرہ ہم سب کو غفلت ترک کردینے اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ زرعی شعبے کی ساخت اور نمو کے جائزے سے بات شروع کرتے ہیں ۔ مقبول عام روایتی تصور فصلوں اور زراعت کو ہم نام خیال کرتا ہے ۔ لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی دو تہائی ویلیو لائیواسٹاک سے جب کہ صرف ایک تہائی اہم فصلوں سے حاصل ہوتی ہے جس میں گندم، چاول ، گنا، کپاس، مکئی ،ا ور چھوٹی فصلوں ، جیسا کہ سبزیوں، پھلوں ، دالوں ، مچھلیوں اور جنگلات شامل ہیں ۔ زراعت کا ذیلی شعبہ ، لائیواسٹاک سالانہ 3.7 فیصد نمو رکھتا ہے ۔ نمو کا یہ سلسلہ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے۔ فصلوں کے ذیلی شعبے کی نمو 2.3 فیصد سالانہ ہے ۔ فصلوں کے شعبے میں نمو کی وجہ اچھے بیجوں ، کھاد اور کیڑے مار ادویات کا استعمال ہے جس نے اس شعبہ کی پیداوار ماضی کی نسبت بڑھا دی ہے۔ اس میں ٹیکنیکل یا ادارہ جاتی تبدیلی کا عمل دخل نہ ہونے کے برابرہے ۔بدقسمتی سے اس وقت پیداوار میں اس کا حصہ صرف 20 فیصد رہ گیا ہے ۔ بڑے کسانوں کو ٹی ایف پی سے مثبت فوائد ملے، لیکن ان کی نمو 1998سے کم ہو رہی ہےچھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کی پیداوار میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گندم کی پیداوار میں اوسطاً 10فیصد کا معمولی اضافہ قومی پیداوار کو 30 ملین ٹن تک لے جاتا جو ملکی کھپت پوری کرنے کیلئے کافی ہے۔ اتنا معمولی اضافہ بھی درآمدات کی ضرورت ختم کر سکتا ہے ۔اس طرح زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔ سب کے بعد بڑے ترقی پسند کسان انہی زرعی خطوں میں اپنی زمین سے اوسطاً 50 من پیدا وار لیتے ہیں ۔ مجوزہ حکمت عملی چھ عناصر پر مشتمل ہے (a) واٹر مینجمنٹ (b) ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (c) زرعی فنانسنگ (d) درآمدی متبادل اور برآمدی توسیع (e) بیج کی بہتری (f) میکانائزیشن، ٹیکنالوجی اور مشاورتی خدمات۔ آخر میں، اجناس کی منڈی میں عوامی پالیسی کی مداخلت جو بگاڑ پیدا کر رہی ہیں، ان کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اختراعی نظریات اور طرز عمل کو فروغ دینا چاہئے۔
واٹر مینجمنٹ
جیسا کہ پہلے بتایا گیا، پاکستان سندھ طاس کے نہری نظام سے 145ملین ایکڑ فٹ اور زیر زمین ذرائع سے سے 50ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرتا ہے۔ سطحی پانی کا 93فیصد زراعت کیلئے استعمال ہوتا ہے اور باقی شہریوں کو پانی کی فراہمی اور صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کینال ہیڈز تک پہنچنے والے 106 ملین ایکڑ فٹ میں سے صرف 41 ملین ایکڑ فٹ فصلوں تک پہنچتا ہے ۔ اس کی وجہ ہیڈ پر غیر قانونی طور پر پانی کا رخ موڑنے سے پانی کا ضیاع، اور آبی گزرگاہوں اور کھیتوں میں ہونے والے نقصانات شامل ہیں۔ 50فیصد سے زیادہ سطحی پانی تقسیم اور کھیت تک پہنچانے کے نظام کے دوران فصلوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے۔ زیر زمین پانی کو بے تحاشا نکالنے کی وجہ سے زیر زمین پانی تیزی سے ختم ہو رہا ہے ۔ پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ خشک سالی، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب، قابل استعمال نہری پانی کی دستیابی کی کمی، پانی کا ضیاع اور زیر زمین پانی کی سطح میں گراوٹ ملک میں زرعی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی گورنرز نے اتفاق رائے سے 2018میں نیشنل واٹر پالیسی کی منظوری دی تھی لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بھی اس پالیسی پر عمل درآمد میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ سفارشات میں اہداف مقرر کئےگئے تھے جیسا کہ ترسیل کے دوران ضائع ہونے والے دریا کے بہاؤ میں 33فیصد کمی، پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو 10ملین ایکڑ فٹ تک بڑھانا، فی قطرہ زیادہ فصل پیدا کرکے پانی کے استعمال کی کارکردگی میں کم از کم 30فیصد اضافہ کرنا۔ اس مقصد کیلئے ڈرپ اور چھڑکاؤ آبپاشی اور پانی کی قیمتوں کی حقیقت پسندانہ پالیسی کی سفارش کی گئی۔ کئی دہائیوں پرانے آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کی بتدریج تبدیلی اور تجدید کاری کا کام شروع کیا جانا تھا۔ ٹیلی میٹری کے ذریعے دریا کے بہاؤ کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ کا کام 2021کے آخر تک مکمل کرنا طے کیا گیاتھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت سرمایہ کاری میں اضافہ ہوناتھا۔ آبی وسائل کے مربوط انتظام کیلئے اعلیٰ سطح کی مہارت اور علم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس لئے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر پانی سے متعلق تمام سرکاری اداروں کی استعداد کار میں اضافے کو اعلیٰ ترجیح دی جانی چاہئے۔ (جاری ہے)