محمد نعمان چشتی
آج سے ٹھیک 85سال قبل، ۲۱؍ اپریل، ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال اس دارِ فانی سے اپنے مالکِ حقیقی کی طرف کُوچ کر گئے۔ آج ہم ان کا پچاسی واں یومِ وفات نہایت عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔ ہم علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق، فلسفی اور مفکرِ پاکستان کے طور پر جانتے ہیں، جس نے پاکستان کا تصور پیش کیا، اپنی اردو اور فارسی شاعری کے ذریعے مسلمانوں بالخصوص مسلمانانِ ہند میں آزادی اور حریت کا جذبہ بیدار کیا اور اپنی فلسفیانہ نثر اور خطبات کے ذریعے اسلامی فکر کی تجدید کے لیے رہنمائی کی۔ آج ۲۱؍ اپریل، ۲۰۲۳ء کا دن اس لیے بھی اہم ہے کہ آج سے ۹۴ سال قبل، عید الفطر ۱۳۵۰ھ کے موقع پر علامہ اقبال نے بادشاہی مسجد لاہور میں عید الفطر کا خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ عید الفطر کی مناسبت سے راقم الحروف نے آج اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے۔
روزنامہ انقلاب اور زمیندار کی وساطت سے اس خبر کا اعلان ۷؍فروری، ۱۹۳۲ء کو کر دیا گیا تھا کہ۱۹۳۲ء (بمطابق ۱۳۵۰ھ)، بادشاہی مسجد میں عید الفطر کے موقع پر مسلمانان لاہور کی امامت حکیم الامت ڈاکٹر سر محمد اقبال کریں گے اور وہ ایک ولولہ انگیز اور رہنما خطبہ ارشاد فرمائیں گے۔
علامہ اقبال کا یہ خطبہ نہ صرف اُس دور کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے بلکہ ہمیں علامہ اقبال کی اس اہم اور گمشدہ جہت کی یاد بھی دلاتا ہے کہ وہ ناصرف ایک وکیل، شاعر اور سیاستدان تھے، بلکہ مسلمانانِ ہند کے مذہبی رہنما بھی تھے۔ یہ خطبۂ الٰہ آباد سے صرف ایک سال اور چند ماہ اور دوسری گول میز کانفرنس سے دو ماہ بعد کا واقعہ ہے، جس وقت علامہ اقبال آزادیِ ہند کے رہنما کے طور پر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا تصور پیش کرنے کے بعد لندن میں مسلمانوں کے حقوق اور ان کی تاجِ برطانیہ سے آزادی کا مقدمہ لڑ رہے تھے، اسی دور میں وہ ایسے مذہبی قائد اور حکیم الامت بھی تھے جس نے اسلامی فکر کی تجدید، مسلمانوں میں پارلیمنٹ کو خلیفہ کا درجہ اور اجتہاد کا اختیار دینے کی بات کی۔
جس نے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خطوط میں یہ واضح کیا کہ ’’اسلام کے لیے سماجی جمہوریت (social democracy) کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کرنا کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہو گا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوؤں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طورپر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔‘‘ اس دور کے سیاسی منظرنامے اور اس میں علامہ اقبال کی معروف حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے خطبۂ عیدالفطر کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس خطبہ کی مخاطب ’’ملتِ اسلامیہ‘‘ ہے۔ اس خطبہ میں علامہ اقبال اس تاریخی پہلو کی یاد دلاتے ہیں کہ دیگر اقوام بھی اپنی خوشیوں کے تہوار مناتی ہیں لیکن مسلمانوں کا یہ تہوار اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہم اللہ وحدہٗ لاشریک کی توفیق سے اس کی فرمانبرداری میں پورا اترنے اور رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھنے کی عید مناتے ہیں۔
اس کے بعد علامہ اقبال عید الفطر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ روزے ۲ ہجری میں فرض ہوئے۔ صدقہ عیدالفطر اور نمازِ عید کا حکم بھی اسی سال آیا۔ نبی کریم ﷺ کا پہلا خطبۂ عیدالفطر صدقات کے موضوع پر ہی تھا۔
اسلام میں مسلمانوں پر نافذ ہونے والے فرائض یعنی توحید، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا مقصد انفرادی طور پر’’فرد‘‘ کو ’’انسان‘‘ بنانا ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’احسن التقویم‘‘ یعنی بہترین سانچہ پر بنایا ہے۔ اسی طرح ان ارکانِ اسلام کا مقصد ملتِ اسلامیہ کو بہترین امت بنانا ہے جو کہ اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اُصولوں کو ہمیشہ سامنے رکھنے والی ہو۔ ان پانچ اراکینِ اسلام میں سے ہر رکن مسلمان کی انفرادی اور امت کی اجتماعی زندگی میں ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ روزہ بھی انھی میں سے ایک ہے۔
روزہ صرف ایک انفرادی عبادت نہیں جو ارشادِ خداوندی کی روح ضبط نفس اور حیوانی خواہشات کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام ہے، بلکہ روزہ اپنے اندر ’’ملت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔‘‘
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد کا تہوار ’’عید الفطر‘‘ اسی لیے کہلاتا ہے کہ اسی دن رسولِ کریم ﷺ نے جب مسلمانوں کو عید کے لیے عیدگاہ جمع ہونے کا حکم دیا تو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ یہ ’’زکوۃ اور اصولِ تقسیم وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا صدقات کا تھا‘‘۔ صدقہ فطر ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
عید کی نماز میں شرکت سے قبل ہر صاحبِ توفیق مسلمان صدقۂ فطر ادا کر کے آئے، اس کامقصد یہ نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن قائم ہو بلکہ ایک مہینہ متواتر ضبطِ نفس یہ سکھاتا ہے کہ اس اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو پورا سال قائم رکھنے کی کوشش کی جائے۔ روزہ رکھ کر محض ہمدردی کا احساس پیدا کر لینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غرباء کو دو چار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا بلکہ نظامِ صدقات کا مقصد مستقل طور پر دنیاوی مال و متاع سے انتفاع کے قواعد قائم کرنا تھا۔ صدقہ فطر کا مقصد ایک ہنگامی ہمدردی نہیں بلکہ مستقل نظام کا قیام ہے۔
اسی طرح روزہ اپنے حلال مال پر قناعت کرنے، جھوٹی گواہی سے اجتناب کرنے کے ساتھ عدالتوں میں جھوٹے مقدمات لے کر جانے سے بھی روکتا ہے۔ یہی اس مہینے کی غرض ہے کہ آئندہ سال بھی ’’اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو اگر اپنا مال دوسرے کو بانٹ کر نہیں دے سکتے تو کم از کم حکام کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں ان کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسرے کے مال پر قبضہ کرنا مطلوب ہو‘‘۔
اس خطبہ میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ مسلمانانِ پنجاب تقریباِ سوا ارب قرض میں مبتلا تھے اور تقریباً ۱۴ کروڑ سود ادا کرتے تھے۔ اس قرض اور سود سے نجات کا راستہ احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرنا، فضول خرچی چھورنا اور بلا ضرورت جھوٹے مقدمات کو عدالتوں میں لے جانے سے گریز کرنے میں ہی ہے۔ انھوں نے اس خطبہ میں حدیث مبارکہ جس میں قرض سے اجتناب کی ہدایت کی گئی ہے بیان کی جس کا مفہوم ہے کہ ’’دیکھو قرض سے بچنا۔ قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔‘‘
روزوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اسے کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سکھانے کا سبب بھی بتایا جس سے مومن آئندہ گیارہ ماہ اپنی صحت کو کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی طرح روزہ انسان کو کفایت شعاری اور رزق کی قدر و قیمت بھی سکھاتا ہے۔
اس امر کی طرف وضاحت کرتے ہوئے کہ روزے صرف ایک مخصوص مہینے میں تسلسل کے ساتھ کیوں فرض کیے گئے علامہ اقبال نے اپنے خطبہ میں اس کا مقصد ’’انسانوں کو احکامِ الٰہی کی فرمانبرداری میں پختہ کرنا‘‘ بتایا۔ یہ کامل مہینہ تزکیۂ نفس کے ساتھ نزولِ قرآن کی سالگرہ بھی ہے۔ نمازِ تراویح کا مقصد بھی یہی ہے کہ قوم کے ہر فرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملاً ازبر ہو جائے۔
آج اگر ہم دیکھیں تو روزے کے روحانی، باطنی اور جسمانی پہلوؤں کے علاوہ صدقہ فطر اور مسلمانوں کی معاشی بدحالی سے نجات کا جو راستہ قرآن و سنت کی روشنی میں علامہ اقبال نے اس خطبہ میں بیان کیا وہ آج بھی اس طرح ضروری ہے، جس طرح آج سے چورانوے سال قبل اہم تھا۔ آج کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب پر تقریباً دس کھرب روپے قرض ہے۔
جبکہ صوبے کے مسلمانوں کا صدقہ فطر تقریباً پونے چار کھرب روپے سے زائد بنتا ہے، جو کہ کل قرض کا ۳۵ فیصد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ناجائز مقدمات میں ضائع ہونے والی رقم کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس قرض اور اس پر ادا کیے جانے والے سود سے نجات ممکن ہے۔ علامہ اقبال کا یہ پیغام آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اس پر عمل وقت کا عین تقاضا ہے۔