پروفیسر حافظ حسن عامر
رمضان المبارک،وہ ماہِ عظیم وہ ماہ ِ کریم ہے جو باری تعالیٰ کے حکم سے اپنے جلو میں بندگانِ الٰہی کے لیے رحمت و شفقت ، مغفرت و بخشش اور خلاصیِ جہنم کا پروانہ نجات لے کر عالمِ دنیا پر سایہ فگن ہوتاہے ،تاکہ بندگانِ خدا اپنے رحیم و کریم آقا کے سایہ رحمت میں پناہ لیں سکیں اور اس کی بخشش و مغفرت کے بحرِ ذخّار میں غوطہ زن ہو کر گناہوں سے پاک و صاف ہو جائیں اور نار دوزخ سے خلاصی کا پروانہ پا کر فائز المرام ہو جائیں۔
عید الفطر یکم شوالِ مکرم کا وہ مبارک و مسعود دن ہے جب فرزندانِ توحید با لخصوص صائمین (روزے دار) ایک ماہ کے فرض روزوں کی تکمیل کے بعد اپنے معبودِ برحق کے نام کی تکبیر ، تہلیل اور تحمید ـ اللہُ اَکْبَرْ، اللہُ اَکْبَر، لَا اِلٰہَ الّاَ اللہُ، واللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبَرولِلّٰہِ الْحَمْدُ ، کی دل فروز صدائیں بلند کرتے ہوئے بارگاہِ ربِ غفور میں سجدہ شکروسپاس بجالا تے ہیں اور ایک امام کی اقتداء میں نمازِ دوگانہ اداکرکے باہم یوں شیر وشکر ہوجاتے ہیں کہ گو یا ایک جسمِ واحد کی طرح ہیں ۔ قرآنِ کریم میں ، ماہِ صیام کے اختتام اور تکمیلِ رمضان کی اس نعمت ِعظمیٰ پر اپنے ربّ کی شکرگزاری اور اسکے برتر و اعلیٰ نام کی تکبیرات بلند کرنے کا حکم دیتے ہوئے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ـ’’اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو ‘‘(سورۃ البقرہ آیت ۱۸۵)
یقیناً عید کا دن خوشی ، مسرت، شادمانی اور انعامات پر شکر گزاری کا دن ہے ۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے لغوی اعتبار سے ’’عید‘‘ عودٌ سے ماخوذ ہے جس کے معنی باربار لوٹنے اور بار بار واپس آنے کے ہیں یعنی خوشی ،جشن یا تہوارکادن جو باربار آئے ۔ عید کو عید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر سال لوٹ لوٹ کے آتی ہے، اہلِ عرب خوشی، مسرت اور شادمانی کے ہر اجتماع کو عید کہا کرتے تھے کیونکہ اس کے لوٹنے سے خوشی لوٹتی ہے ۔ اسی طرح ’’فِطْر‘‘ کے معنی ’’روزہ کھولنےیا افطارکرنے کے ہیں، یوں ’’عیدالفطر‘‘ کا مطلب ہوا روزہ افطارکرنے کی خوشی کا دن، جو ہرسال بار بار آئے ، یعنی اہلِ اسلام کا سب سے بڑا تہوار یا خوشی کا دن جو ماہِ رمضان کے اختتام کے بعد یکم شوّال کو منایا جاتاہے۔
اس دن اللہ تعالیٰ بخشش و مغفرت، رحمت و عنایت کا فیضان اپنے بندوں پر فرماتا ہے، لحاظہ اس مبارک دن کو عید کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسلام میں عید کی ابتداء ۲ھ میں ہوئی ،جیسا کہ صاحبِ رحیق المختوم رقمطراز ہیں :’’پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی ،وہ شوّال ۲ھ کی عید تھی،جو جنگِ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی۔
کتنی خوشگوار تھی یہ عید ِسعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سرپر فتح وعزت کاتاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی۔ اور کتنا ایمان افروز اس نماز ِعید کا منظر تھا جسے مسلمانوں نے اپنے گھر وں سے نکل کر تکبیر و توحیداور تحمید و تسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر اداکیا تھا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کےدل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی عطاکی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے، ان کی پیشانیاں اس کے شکروسپاس کی ادائیگی کے لئے جھکی ہوئی تھیں‘‘
عید الفطر باری تعالیٰ کی طرف سے مسلمان روزے داروں کے لیے خوشی و مسرت شادمانی اور سرور تشکر و امتنان کا وہ ان مول تحفہ ہے جس کی بناء پر مسلمان آپس کے اختلافات بھلا کر باہمی شکر رنجیاں ختم کرکے دل کی کدورتیں اور نفرتیں مٹا کر شیر و شکر ہو جاتے ہیں اور (اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو) کا مصداق ہو کر وحدت اور یک جہتی اتحاد اور یگانگت، اخوت و بھائی چارے کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں جو دراصل عید کے عظیم الشان اجتماع کی اصل روح ہے۔
یاد رکھیئے۔ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بے روزگار اور شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں ،لوگ مفلوک الحال ہیں ۔ گھروں کے چولھے بجھ گئے ہیں۔ بعض لوگ ایک وقت کی روٹی کے انتظام تک کی سکت بھی نہیں رکھتے، مگر اسلامی تعلیمات پر قربان جائیے اختتامِ رمضان پر نمازِ عید سے قبل صدقۃ الفطر کو واجب قرار دیاگیا ہے، تاکہ کوئی شخص عید کے موقع پر بھوکا نہ رہے، اللہ کے نزدیک بھوکے ، مفلوک ، قلاش ، بدحال اور فاقوں کے مارے، مٹّی میں پڑے فقیر کو کھانا کھلانا تو دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنے سے بھی کہیں زیادہ عزیمت کا کام ہے ،ارشادِ خداوندی ہے؛’’اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ کسی کی گردن (غلامی سے) چھڑادینا یا پھر کسی بھوک والےدن کھانا کھلا دینا کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی مسکین کو جو مٹّی میں رُل رہا ہو‘‘(سورۃ البلد آیت نمبر ۱۶ا۔۱۲)
عید الفطر کے اس پرمسرّت موقع پر ہمیں اپنے بھائیوں کا خوب خیال رکھنا چائیے اور بہر صورت ان کی مدد کرنی چاہئے۔ نیز دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے۔ یہ نہ صرف ہمارا دینی فریضہ بلکہ اخلاقی ذمّہ داری بھی ہے۔